Tuesday, 31 January 2017

میانمار کے معروف و سماجی شخصیت اور مسلم وکیل کونی کو حالیہ افسوس ناک واقعہ میں بیرون ملک سے واپس میانمار پہنچنے پر دہشت گردوں نے ایئر پورٹ پر حملے کر ہلاک کر دیا گیا، اس دل خراش سانحے میں ان کے ساتھ ساتھ ٹیکسی ڈرائیو بھی گولیاں کا نشانہ بنا ۔ میانمار کے اندر کونی کا شمارمسلمان کمیونٹی کے عظیم رہنما وں اور لیڈروں میں ہوتا تھاان کی مسلمانوں کے حقوق کی جنگ عرصہ دراز سے جاری تھی۔ 1988 میں کونی حکومت کے مخالف تحریک کا حصہ بنے جس کے نتیجے میں ان کو قید و بند کی مشکلات و تکالیف اٹھانا پڑی۔کونی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے جنہوں نے فوجی بغاوت کے بعد گورنمنٹ چارٹر بنانا میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ پچھلے سال کونی نے مسلم لائرڈ ایسویشن کی بنیادڈالی جس کا مقصد تمام انسانوں کو مساوی بنیاد پر حقوق کی فراہمی تھی۔ برما (میانمار) براعظم ایشیاء کا غریب اور پسماندہ ترین ملک ہے۔ جغرافیائی طوراس کی سرحدیں چین، بنگلا دیش، روس، تھائی لینڈ اور عرب ممالک سے ملتی ہیں۔ 6کڑور سے زیادہ آبادی والے اس ملک کا رقبہ 6 لاکھ 77ہزار مربع کلومیڑہے۔ ریاست بدحالی اور افلاس کے باوجود اپنا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ برما میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں لیکن حالیہ مردم شماری کے مطابق 50 فیصد بت پرست اور صرف 5 فیصد مسلمان یہاں کے شہری ہیں جب کہ اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کی مطابق 1 کروڑسے زیادہ مسلمان میانمار میں آباد ہیں۔
1973 میں برما نےآزادی تو حاصل کی لیکن انگریز سمراج نے راکھین کو آزاد ملک کا درجہ دینےکے بجائے اسے برما کے بت پرستوں کے حوالے کر دیا۔1784 میں راکھین ایک آزادمسلم ملک تھا، روہیگنا اور راکھین مسلمانوں کا آبائی ملک تھا جس پر بعد میں برمیوں نے قبضہ کر لیا۔ مہاتم بت کے درس کے مطابق دنیا دکھوں کا گھر ہے اور مہاتم بت امن کے سفیربنا کر بنائے گئے ہیں۔ آج مہاتم بت کے پیروں کاروں نے مظالم کی حد کر دی ہے ، مسلمانوں پر انسانیت سوز دکھوں کی یلغار کر دی گئی۔ مسلمان جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کے حقوق و فرائض سے معذور رکھا گیا ۔ برما کی حکومت کی طرف سے بر ملا اعلان کیا گیا کہ مسلمان جو یہاں اآباد ہیں وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ برما صدر تھین سین کے نظریات کے مطابق مسلمانوں کو کوئی حقوق و رائیٹ نہیں کہ وہ یہاں کے پاشندے بن کر رہ سکیں ان کے تحفظ کا ایک راستہ ہے کہ وہ شہروں کو چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں چلے جائیں یا برما کو چھوڑ کر چلیں جائیں۔ روہینگیا شہر مسلم اآبادی کا اکژیتی علاقے کے شہریوں کی تحفظ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے 45 ہزار بچوں کا اندراج نہیں کیا گیا مسلم پر پابندی لگائی کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے ۔ 1982 میں قیام شدہ قانون کے مطابق روہیگنا کے پیداہونے والے تمام بچے برمی شہری نہیں ہیں انہیں حکومت کی جانب سے کوئی سہولیات میسر نہیں کی گئی۔
غذا ، خردونوش، صحت اور تعلیم سمیت بنیادی سہولیات فراہم نہیں کئی گئیں۔ ماضی میں بڑی تعداد میں یہاں کے مسلمانوں نے بنگلہ دیشن اور تھائی لینڈ ہجرت کر لی ۔ بنگلہ دیش حکومت نے برما سے آنے والے مہاجرین کے لئے سخت پالیسی مرتب کی۔ ڈھاکہ سرکار کو خطرہ ہے کہ یہ پناہ گرین بنگلہ دیش میں آ کر جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں گے جس سے ان کی طاقت کو تقویت ملے گی۔ 28 مئی 2012 کو برمی بت مذہب خواتین کے قبولیت اسلام کے بعد مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی دیر تھی کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہو گیا۔ بت پرستوں نے انتقام کے لئے اس مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کے بعدقتل کرکے الزام مسلمان فیملی پر لگا دیا۔ بت پرستوں کو یہ ڈر اور خطرہ لاحق ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کامذہب ہے جو تمام انسانیت کو برابری کا حق دیتا ہے اگر اس طرح مسلمان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو بت پرست کا مذہب زوال پذیر اور مسلمان اکثریت پا جائیں۔ اس منفی اور انسانیت کش نظریہ کو بت پرست لیڈروں نے بنیاد بنا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے یہ مظلومیت کا واقعہ ترتیب دیا تاکہ تمام اقوام عالم کی ہمدردیاں بت پرستوں کے حاصل ہو سکیں۔
3 جون 2012 کو بت پرستوں نے تبلغی جماعت کی ایک بس پر دھاوا بول دیا جس میں 10 سے زیادہ مسلمان شہید کر نے کے بعد اس کے سر منڈ کر ان کے چہرے مسخ کئے اور ان کو اپنا ساتھی قرار دے کر یہ الزام مسلمانوں پر لگاکہ ہمارے رہنماوں کومسلمانوں نے قتل کیا ہے۔ اس بھونڈے الزام کو پورے ملک میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیاجس کے بعدمسلمانوں کے خلاف ، ظلم ، بربریت اور فسادات کا ناروکنے والاسلسلہ شروع کروایا گیاجس میں برما کے اندر کوئی مسلمان محفوظ نہیں رہاجن کو بیمہانہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ریاست کے تمام دفاعی ادارے پولیس اورفوج نے بت پرستوں کا کھل کر ساتھ دیا یہ قتل اور جلادوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آئی۔ مسلم کی عزارسانی اور قتل و گارت گری کو مذہبی فریضہ سمجھ کرانجام دیا۔ 10 جون 2012 کو فوج نے اکثریتی مسلم علاقوں میں کرفیو نافض کر دیاتاکہ عالمی برادری تک ان مظالم کی رسائی نہیں ہونے پائے۔
برما میں حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی عائد کی گئی۔ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت حکومتی سر پرستی میں “مال ملائشیا نامی تنظیم” نے 900 سے زیادہ دیہادتوں کو صف ہستی سے مٹادیا مسلمانوں کا سفاکانہ قتل کرنے کے ساتھ ان کی عزت کی دھجائیاں بکھری گئی عورتوں کی عصمت اور بے آبروی گری کے ساتھ ان کے مکانات اور کھیتوں کو نظر آتش کرنے کے ساتھ 60سے زیادہ مساجد کو شہید کیا گیا۔ برمی مسلمانوں کی اس قیامت سوزی گھڑی میں 1 لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو جبر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان لا پتا ہیں ۔ انسانیت سوزمظالم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ شدید پسند مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خنزیز کا گوشت کھائیں، شراب پیئں یا مرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ قتل و خون کی جاری ہولی میں عالمی برادری اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا نے میں اندھی، گوگی اور بہری نظر آتیں ہیں ۔ان تنظمیوں کی اس ظلم و ستم پر مداخلت اس وقت ہوتی ہے جن سامراجی حکومیتیں اپنے فوائد اور مفادات کے لئے ان کو اجازت دیں۔
یہ عالمی انصاف کا دوہرا معیارسب عیاں کر دیتا ہے کہ ان کی زبان پر تالے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔انسانی حقوق کی ترجمان تنظمیں عالم کفر کے الگ اور مسلم نیشنل کے الگ معیار اور سوچ کے مالک ہو کر فیصلے کرتے ہیں۔ بے حد افسوسناک صورتحال یہ ہے مسلم امت اور ممالک بھی اس سارے المیہ پر خاموش تماشی کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھائی دیتی ہے۔ برما کے مسلم برادری عالمی برادری سے انصاف اور مدد کی اپیل کرے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور او ۔آئی۔سی کی طرح ان کی نظریں پاکستان پر بھی لگی ہوئی ہیں کہ حکومت پاکستان سخت موقف اپناتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات کی بنیاد پرعالمی برادری کی توجہ برما کے مسلمانوں کی طرف دلائےتاکہ ظلم و جبرکے ارتکاب کو بند کرکے جنگی جرائم کے مرتکب گروہوں اور عناصر کو عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔

Tuesday, 24 January 2017

ڈونلڈ ٹرمپ کا جارحانہ رویہ



ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا تختہ اقتدار سنبھال چکے اور حسب معمول پہلی تقریر میں انہوں نے اپنا زہر نکالا ہے۔ایگ غیر سیاسی پس منظر رکھنے والے ٹرمپ بچپن سے ہی تیز و تند مزاج سے خاندان بھر میں مشہورہوئے۔ان کے والد فریڈرک کرائسٹ ٹرمپ کا تعلق کوئنز سے تھا ، 1964 میں ابتدائی سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کا رخ گلیمر کی دنیا کی طرف ہو گیا، فلمی شوق کے باعث فورڈہم یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا ،اس کے دو سال بعدپینسلوینیا یونیورسٹی میں وارٹن بزنس سے تعلیم مکمل کی۔ 1971 میں ان کی فیملی نیویارک (مین ہیٹن) میں شفٹ ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے روابط بزنس مین و کاروباری افراد کے ساتھ قائم ہونے شروع ہو گئے، جس کے بناء پر مین ہیٹن 42 وین سیڑیٹ پر کموڈور ہوٹل خریدا یہ ٹرمپ کی تجارتی کامیابی کا پہلا قدم ثابت ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی 
تینوں بیویوں کا تعلق شوبز اور ماڈلنگ انڈسٹری سے ہے۔


1977 ٹرمپ نے پہلی شادی چیک ریپلک کی ماڈل خاتون ایواناز یلنسیکووا سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ 1988 میں امریکی شہریت ملی اور ان کی مہنگی طلاق جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ ڈالر کے ساتھ 1992 میں مارلا میپلز کے معاشقے پر ختم ہوئی۔1993 میں ٹرمپ نے مارلا میپلز کے ساتھ شادی کی جو پروفیشن کے اعتبار سے ماڈ لر اور تعلق جارجیا سے تھا۔ تعلقات کی خرابی کے باعث چھ سال کے بعد تیسری شادی میلانیاناس کے ساتھ ہوئی۔
1982 میں مین ہیٹن پر28 منزلہ ٹرمپ ٹاور کا قیام ہواجس کی تعمیر میں کئی تنازعات نے جنم لیا۔ ٹاور کی تکمیل پر گرینڈ پارٹی کا اہتمام کیا گیا نیویارک کے میئرایڈ کوچ سمیت 700مہمانوں نے شرکت کی۔ ٹاور کی تعمیر سے ٹرمپ کا نام مین ہیٹن کی تاریخ میں رقم ہو گا اور وہ شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے لگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 1987 میں اپنی پہلی کتاب (دی آرٹ آف ڈیل) میں اپنی کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے طریقوں سے پردہ اٹھایا۔ اس کتاب سے ٹرمپ کو رائیلٹی کے ساتھ خوب شہرت بھی ملی ۔یہ کتاب نیویارک کی بیسٹ سیلر بک میں سے ایک کتاب بنی۔ تجارتی حلقوں میں ٹرمپ نے تجربہ کار بزنس مین ہونے کا لوہا منوایا۔ ڈونلذ ٹرمپ نے کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاتے ہوئے ائیر لائنز کا قیام شروع کرنے کے بعد سیکنڑوں تاریخی عمارتیں کی تعمیر کا کام مکمل کیا۔
1990 کی دہائی ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے بہت ہی نقصان دہ اور افسوسناک ثابت ہوا۔نیویارک کا ر یٹل سٹیٹ بازار شدید مندی کا شکار ہوا۔ 1991 اٹلانٹک سٹی میں واقع تاج محل کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا۔ اس دہائی کے ہچکولے کھانے کے بعد ٹرمپ دوبارہ کمر بستہ ہوئے ۔انہوں نے اپنی یاٹ اور ائیر لائنز کو فروخت کیا۔ جوانی سے رنگ مزاج شخصیت سے پہچانے جانے والے ٹرمپ نے اس بار انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں اپنی قسمت آزمانے کا ارادہ کیا۔ مس یونیورس کی فرنچائز پر قبضہ جمایا،جس میں مس امریکہ اور مس ٹین امریکہ مقابلہ حسن بھی شامل حال رہا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دوران (دی آرٹ آف کم بیک) اپنی دوسری کتاب کو شائع کیا اس کتاب میں اپنی بیوی مارلا میپلز 1993۔97 کے ساتھ کئی لمحوں اور واقعات کو قلم بند کیا جس سے ٹرمپ کو خوب پذیرائی کے ساتھ رائیلٹی بھی ملی اور ٹرمپ قرضوں کے چنگل سے آزاد ہوئے۔


1999 جون میں ٹرمپ کے والد فریڈرک کرائسٹ ٹرمپ کا انتقال ہو ا ، ان کے آخری رسومات میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی جوئینر نے ان کو تعزیت خط بھی ارسال کیا۔والد کے ورثے میں انہیں تقریباً 300 ملین ڈالر ملے۔2000 ء میں سیاست میں قدم رکھا اور ہیلیری کے خلاف صدرارتی مہم کا حصہ بنے۔ ٹی شو د ی اپرینٹس میں مالیاتی شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور کئی ایگزیکٹو کردار ادا کئے۔ یہ شو بہت ہی پاپولر ہوا اور اس سے ٹرمپ کو عزت کے ساتھ ساتھ خوب پیسہ ملا۔ ہالی ووڈ فیم نے 2007 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ستارہ سے بھی نوازگیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی یونیورسٹی متنازعات کا شکار رہی۔ یونیورسٹی میں طلبہ علموں کو گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام آفر کئے گئے جن میں طلبہ کو ٹرمپ کی مالیاتی کامیابی کے راز سیکھائے جاتے تھے۔ طلبہ کے مقدمات کے بعد یونیورسٹی کو بند کرانا پڑا۔ 2007 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے والدہ کے نام پر سکاٹ لینڈ میں ایبرڈین کے مقام پر گالف کورس خریدا جس کے دوران مقامی برادری اور ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والوں اداروں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا 2012 میں تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کو کھول دیا گیا۔
صداراتی الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی مضبوط امریکی خاتون ہیلری کلنٹن کو ہر ا کر ساری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بہت سے اہم اعلانات ، نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جس کی بناء پر امریکی کی اکثریت نے ان کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا زیادہ فوکس ریاست کے شہری علاقہ جات کے ساتھ دیہاتوں اور قصبوں کو کیا۔ ہیلری کارحجان شہری ایریز کی طرف تھا۔ جمہوری ممالک کی روایات کے مطابق ہیلری نے الیکشن رزلٹ کو مانتے ہوئے شکست تسلیم کی اور ڈونلڈٹرمپ کو مبارک باد پیش کی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخاب کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ٹرمپ کے خلاف بڑے شہروں میں افراد سڑکوں میں احتجاج کر رہے ہیں۔
امریکہ کی ریاست کے اندر بہت سے دوسری مذاہب و اقوام کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں سیاہ اور سفید فارم آباد ہیں۔ آج امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں امریکی شہریوں کے ساتھ دوسری قوموں کا بڑا اہم رول ہے۔ حالیہ صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ نے آئی سولیشن پالیسی کو اپناتے ہوئے فرقہ بندی اور تعصبت کوابھاتے ہوئے نفرت پسندی کو خوب اجاگر کیا،جس سے پوری ریاست کے اندر نسلی تضادات کی فضا قائم ہوئی۔ ٹرمپ نے زیادہ تر اپنا ٹارگٹ کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ افراد کو بنایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی پالیسوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے دیگر ممالک سے قائم شدہ پالیسوں اور تعاون پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسے امریکی عوام کا نقصان قرار د یا اور فرمان جاری کیا کہ میرے اقتدار میں آنے کے بعد تمام پچھلی پالیسوں کو ریویو کیا جائے گا۔ پاکستان کے بارے میں سخت موقف اپناتے ہوئے امداد کے تمام منصوبوں کو فوری طور پر ختم کر نے کا اعلان کیا ، دہشت گردی کے خلاف اسپشل قانون معترف کرنے کا ارادہ کیا۔
بھارت کے ساتھ اپنے روابط مزید بڑھانے کی نوعید بھی سنائی، امریکہ اور بھارت دونوں اہم اتحادی ہونے کے ساتھ اسٹر یٹجک پارٹنر ہیں۔ بھارت 30ملین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ امریکہ سے خرید رہا ہے۔ مودی اور ٹرمپ دونوں انتہا پسندی پالیسی کے فالوور ہیں جس سے بھی امریکی ساخت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے نہ صرف امریکی معاشرے میں کشیدگی کا اضافہ ہوا سیاہ اور سفید فارم میں نفرت بڑھنے لگی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران تمام رہائش پذیر مہاجرین کو ریاست چھوڑنے کا فرمان بھی جاری کیا۔ میکسیکینز کے بارے میں حکومتی کی موجودہ پالیسی کو رد کرتے ہوئے میکسکو کے ساتھ تمام راستے دیوار سے بند کر کے تمام میکسیکنز کو ملک بدر کا عندیہ دیا۔ ماضی میں امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں بڑا رول میکسیکو کا رہا ہے حالیہ اقدامات کے اٹھائے جانے پر لیبر کی کمی کے باعث امریکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سیاہ فام کو پروموٹ کرکے گریٹر امریکہ کا پلان رکھتے ہیں جو کسی صورت بھی امریکہ کی بقاء کا حصہ نہیں ہو سکتاہے۔
ٹرمپ اپنے بیانات کے اندر امن وسکون اور سلامتی کے ساتھ اپنے ملک میں معاشی ترقی کے اقدامات پر عمل درآمد کے خواہاں ہیں۔ان کے خیال میں امریکی عوام نہیں چاہتی ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کی بقاء کی جنگ لڑے۔ موجودہ صدر اوبامہ کی انہیں پالیسوں کے باعث امریکی معیشت کا گراف نیچے کی طرف آیا ہے۔ امریکہ کے اندر فرد واحد کے پاس مختار کل کا اختیار نہیں، ایوان نمائندے گان کی اکثریتی رائے کے مطابق فیصلے عمل پذیر ہوتے ہیں۔
ٹرمپ نے نیو کلیئر ایران معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے فوراً ختم کرنے کا کہا ہے جس کا شدید دباؤ یورپی ممالک کو برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جن کی کاوشوں سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کوآگے بڑھانے سے روکاگیا ہے۔ ایران پر دوبارہ پابندی لاحق ہوئی تو معاملہ دوبارہ شدت نوعیت اختیار کر سکتا ہے۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران نیٹو ممالک پر تنقید کرتے ہوئے تجارتی پالیسی کا اختیار اپنے پاس رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تجارت کے حوالے سے اپنی مرضی کی شراکت کا قانون کا نافذ عمل پذیر ہو گیا۔
ٹرمپ نے مسلم کیمونٹی ،مسلمان اور خواتین کو شدید نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے امریکہ کو مضبوط کرنے کیلئے ایسے اقدامات کا اعلان کیا جس سے عوام میں ہمدردی کا عنصر اْبھارا جائے جس سے امریکی انہیں اپنا خیر خواہ سمجھیں ، جبکہ ہیلری کے بارے میں وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ اوبامہ کی باقیات و پالیسیوں کو آئندہ بھی قائم و دائم رکھے گی ۔
امریکہ میں کئی عرصہ سے ری پبلک پارٹی کا ہولڈ پایا جا تا ہے ، اس جماعت کے نمائندے ایوان اور سینٹ کی پالیسوں پر قابض ہیں۔امریکی کے مطابق اوبامہ قوم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اس کا فائدہ ٹرمپ نے جارحانہ لہجہ او ر قومیت پسندی کے طور پر اٹھایا ۔اور اسکا عندیہ انوہں نے تازہ خاطب میں بھیہ کیا ہے۔اب یہ آنے والا وقت ، حالات اور واقعات ہی فیصلہ کرے گا کہ ٹرمپ کے نظریات اور، خیالات امریکی ریاست کی خوشحالی و ترقی میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

تحریر : نجم الثاقب
آج اقوام عالم کے اندر سب سے بڑا المیہ دہشتگردی اور منشیات کی آفات ہے جو دنیا کے تمام معاشروں اور سوسائٹیوں کو نیس و نابود کر رہاہے۔ کائنات کے حقیقی واحد لاشریک مالک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا لیکن آج وہ منشیات کے ذریعے پستی کا شکار ہو رہا ہے ۔ اسلام کے ساتھ تمام مذاہب( ہندو، عیسائی، یہودی ، بد ھ مت ) میں منشیات کے استعمال کو برا سمجھتے ہوئے منع کیا گیا ہے۔ ماہرین سروسے کے مطابق اقوام عالم میں سب سے بڑی تعدادمیں افیون اور اشیش کی پیداوار کرنے والا ملک افغانستان ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک کی وجہ سے نشہ کی لعنت آج پاکستان کے تمام شہروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ منشیات کے استعمال سے جسمانی امراض میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ، نشہ کے عادی افراد ہیپاٹائٹس، ایڈز جیسی جان لیوا بیماریوں کے ساتھ دیگرکئی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔منشیات ایک ایسا خاموش قاتل ہے جو آہستہ آہستہ مریض کو ختم کر دیتا ہے



دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے طرح ہمارے ملک کے تمام شہروں میں نشہ کی لعنت پھیل چکی ہےہر گلی اورمحلے کی سطح میں ہمیں نشی کے عادی افراد ملتے ہیں۔ نشہ نسل انسان کیلئے موت کو پیغام کے ساتھ بہت سے جرائم ساتھ لاتا ہے۔نشہ کے عادی افراد اپنی عادت کو پورے کرنے کے لئے مختلف جرائم کے عادی بن جاتے ہیں جس سے جمہوری اور معاشرتی قدریں ختم ہو جاتیں ہیں ۔ منشیات کے عادی افراد میں بوڑھے، نوجوان، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

آج پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کھلے عام منشیات کا کاروبار جاری ہے ۔ وفاقی درالحکومت کے ساتھ ملک کے دیگر تمام بڑے تعلیمی اداروں کے اندر سرعام طلبہ اور طالبات فخرانہ انداز میں اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور قانون نافض کرنے والے ادارے منشیات کی روک تھام میں بے بس اور بے حس دیکھائی دیتے ہیں ۔ قوم کے معماروں، نہالوں اورنوجوان ہی پاکستان کا مستقبل ہیں اور انہوں نے ہی آنے والے کل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔
Lahore Student Smoking
Lahore Student Smoking
افسوسناک بات یہ ہے آج باقاعدہ طور پر یونیورسٹوں اور کالجوں کےاندر ایسے پروگرام اور محفلیں منعقد کئیں جاتیں ہیں جہاں طلبہ کی بڑی تعداد منشیات میں جھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ لعنت ہمارے تعلیمی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے ساتھ نوجوانوں کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ قوم کے نونہالوں کو اس لت میں مبتلا ہونے سے روکنا کس کی ذمہ داری ہے ۔ قومیں اپنے کردار، گفتار ، عادات سے مقبولیت پاتی ہیں ہمیں پرائمری سطح پر تعلیم حاصل کرنیوالے بچوں پر بطور خاص توجہ دینا ہوگی کیونکہ جو باتیں اس وقت ان کے ذہنوں میں بیٹھ جائیں وہ ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر نقش رہتی ہیں۔ نوجوانوں میں نشہ کرنے کی عادت بہت پرانی ہے اور آج سے ساٹھ ستر برس قبل بھی نوجوان سگریٹ نوشی سمیت منشیات بھی استعمال کرتے تھے اور آج بھی یہ کام جاری ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے لڑکیوں میں بھی سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ کرنے کی عادت پڑ رہی ہے جو خطرناک رحجان ہے۔مختلف سروسے اور اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں نشہ کرنیوالے افراد کی تعداد میں 10 لاکھ سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 3 لاکھ سے زائد خواتین بھی اس بری عادت میں مبتلا ہیں جن میں سے 6لاکھ ہیروئن اور 4 لاکھ سے زائد انجکشن کے ذریعے نشہ کے عادی ہیں اور پاکستان سگریٹ نوشی ڈرگ کے استعمال کی طرف پہلا قدم ہے جو موت کا باعث بنتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے بڑھ کر خطرناک نشہ شیشہ ہے جو آج کر ایک جدید فیشن اور سٹائل بن کر نوجوان نسل میں مقبول ہو چکا ہے۔

تح
حکومت پاکستان کے ساتھ تمام طبقات کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ملک میں منشیات کے استعمال کو روکنے کیلئے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ بالخصوص اساتذہ اور والدین نئی نسل پر نظر رکھیں اور انہیں منشیات کے استعمال کی بری عادت میں مبتلا ہونے سے روکیں۔

Friday, 13 January 2017

آج ابن انشاء کی برسی ہے








ابن انشا کا شمار اردو کے ان مایہ ناز قلمکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔
ایک جانب وہ اردو کے ایک بہت اچھے شاعر تھے دوسری جانب وہ مزاح نگاری میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے اور کالم نگاری اور
                                                                                                                 سفرنامہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے بانی تھے۔
     ابن انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ء کو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی
                                                                                                                           اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔
انہوں نے 1960ء میں روزنامہ امروز کراچی میں درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ 1965ء میں روزنامہ انجام کراچی
           اور 1966ء میں روزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی جو ان کی وفات تک جاری رہی۔ وہ اک طویل عرصہ تک نیشنل بک
                                                                                                                                                       کونسل ڈائریکٹر رہے  
زندگی کے آخری ایام میں حکومت پاکستان نے انہیں انگلستان میں تعینات کر دیا تھا تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں لیکن سرطان کے
                                       بے رحم ہاتھوں نے اردو ادب کے اس مایہ ناز ادیب کو ان کے لاکھوں مداحوں سے جدا کر کے ہی دم لیا۔
          ابن انشا کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں اس بستی کے ایک کوچے میں اور
 دلِ وحشی شامل ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کو کئی خوبصورت سفرنامے بھی عطا کئے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے
، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافرشامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں میں
اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصہ ایک کنوارے کا قابل ذکر ہیں                                                    ۔
ابن انشا کا انتقال 11 جنوری 1978ء کو لندن کے ایک اسپتال میں ہوا اور انہیں کراچی میں پاپوش نگر کے                             
قبرستان میں دفن کیا گیا                                                                                    

Sunday, 1 January 2017

سال 2016 کا آخری سورج