محترم ویورز آجکل یہ گو نواز گو کے نعرے زبان زد عام ھیں۔ ایسا کیوں ھے اتنی رسوائی اس شخص کا مقدر کیوں ھے آئیے اس پہ بات کرتے ھیں۔
پاکستان کی تاریخ میں جتنی تجارتی ترقی شریف خاندان نے اقتدار میں آ کر کی یہ سعادت کسی اور سیاست دان کو نصیب نہیں ہوئی، شہرت تو بہت سے سرمایہ داروں نے حاصل کی مگر سچ یہ ھے کہ عزت اعلیٰ کردار والوں کو ملتی ہے، جنہوں نے اپنی زندگیاں عوامی فلاح کے لیے وقف کر دیں.
نواز شریف صاحب کے خاندان کا شمار مذہبی خاندانوں میں ہوتا ہے، سالوں سے یہ معمول ہے کہ نوازشریف رمضان کا آخری عشرہ سعودی عرب میں گزارتے ہیں۔ اپنی تقریروں میں قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کی زندگیوں کا بھی ذکر کرتے رہتے ہیں مگر اپ کی شان و شوکت اور آپ کے مال و دولت کا کیا عالم ہے؟ آپ کی بود و باش کیسی ہے؟ اولاد کا چلن کس طرح کا ہے؟ ان کا کاروبار کیا ہے؟ اقتدار میں آنے سے قبل آپ کے پاس یہ سب کچھ تھا؟ ھمیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم جدی پشتی امیر آ رہے ہیں تو حضور والا حضرت عمربن عبدالعزیزؓ آپ کی طرح شہزادے تھے، جس طرح آپ وزیراعظم بننے سے پہلے وزیر اعلیٰ رہے، وہ بھی امیر المؤمنین بننے سے پہلے گورنر تھے، جس طرح آپ کی خوش خوراکی اور خوش لباسی کا شہرہ ہے، وہ بھی عرب میں جامہ زیب اور خوش خوراک مشہور تھے۔ جس طرح آپ کے ہاں دولت کی ریل پیل ہے، ان کے ہاں بھی یہی رنگ تھا۔ فرق یہ ہے کہ آپ کی دولت میں اضافہ اقتدار میں آنے کے بعد ہوا اور وہ اقتدار میں آئے تو سب کچھ قربان کر دیا۔ امیری کے حصار سے نکل کر فقیری کے حلقے میں داخل ہوگئے اور آپ امیری کی ہمالیہ پر جا بیٹھے۔ وہ بیوی بچوں کی آسائش کو اپنے لیے آزمائش سمجھتے تھے اور آپ بیوی بچوں کی آسائش کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز امیر المؤمنین بننے کے بعد دارالخلافہ روانہ ہونے لگے تو کوتوال نے حسب دستور نیزہ اٹھا کر چلنا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ یہ کروفر آج سے ختم، مگر جب آپ نکلتے ہیں، کان پھاڑتی ہارن بجاتی گاڑیوں کے جلو میں تو عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
یا حضرت آپ کو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی مثال اسلئے دی ھے کہ آپ مزہب کا جُبہ پہن کہ پاکستان کی معصوم عوام کو نہایت چابکدستی سے مزہبی طود پہ ایموشنل بلیک میل کرتے رہتے ھیں۔
امیر لمومینین بننے کے خواہشمند جناب نواز شریف صاحب اپ کو شاید کسی نے یہ بتایا ھو کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اقتدار میں آ کر سادگی کے وہ انمٹ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک باقی رہیں گے. ہندوستان میں گاندھی کے قتل کے بعد قائداعظم کو تجویز پیش کی گئی کہ سکیورٹی کے لیے گورنر جنرل ہاؤس کے رہائشی حصے کے ساتھ حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے۔ قائداعظم نے مالی دشواریوں کا احساس کرتے ہوئے یہ تجویز مسترد کر دی، مگر آپ نے تو رائیونڈ محل کے گرد حفاظتی دیوار کی تعمیر پر مفلوک الحال قوم کے اربوں روپے لگا دیے اور اپنی حفاظت پر سینکڑوں جوان مامور کر دیے جن کو تنخواہیں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دی جاتی ہیں
قیام پاکستان کے بعد گورنرجنرل کے سر کاری استعمال کے لیے ایک طیارہ خریدنے کی غرض سے ایک امریکی کمپنی سے رابطہ کیا گیا، امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم ایچ اصفہانی نے قائداعظم کے نام خط لکھ کر طیارے کی قیمت سے آگاہ کیا جو اس وقت پندرہ لاکھ پاکستانی روپے تھی، قائداعظم نے اس کی اجازت نہ دی مگر ظلِ الہیٰ شہبازشریف نے اپنے لیے افلاس سے ماری قوم کے پیسوں سے کئی سو کروڑ کا طیارہ خریدا۔ کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے قائداعظم کی رہائش گاہ کے لیے فرنیچرگفٹ کرنے کی پیشکش کی، قائداعظم نے پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر دی اور کہا کہ وہ گفٹ وصول کرنے کی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے، مگر گفٹ کے معاملات میں تو آپ سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی سے بھی بڑھ کہ بادشاہ سلامت ثابت ہوئے
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کا لباس دیکھنے والے یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان کے لباس پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان جدی پشتی نواب تھے۔ بلکہ نواب ابن نواب تھے۔ اپ کے اجداد کی طرح لوھا نہیں لوٹتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل لیاقت علی خان ہندوستان میں کروڑوں روپے کی جائیداد کے مالک تھے لیکن انہوں نے اور نہ ہی ان کی بیگم نے پاکستان میں کوئی جائیداد حاصل کی، جو کچھ بھی ان کے قانونی حق بنتے تھے، وہ سب انہوں نے چھوڑ دیے۔ جب وہ شہید ہوئے تو پورے پاکستان میں ان کا پانچ مرلے کا ایک مکا ن بھی ذاتی ملکیت میں نہیں تھا۔ یہ تھا پاکستان بنانے والے ہمارے قائدین کی دیانت اور ایمانداری کا معیار، اگر یہ چاہتے تو بزنس ایمپائر اور وسیع و عریض جائیدادوں کے مالک بن سکتے تھے مگر سب کچھ ملنے کے باوجود اپنا دامن بچا کر چلے گئے، اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
جناب وزیر اعظم صاحب
اقتدار آپ کو بھی ملا اور تین بار ملا مگر کیا آپ کو اسلئے ھی اقتدار ملا تھا کہ پورے ملک کی اپ سے بیزار عوام آپ کے لئے گو نواز گو کے نعرے سر عام لگائے۔
No comments:
Post a Comment