Wednesday, 24 May 2017

زلزله




                                       

                                                                                                                                                    شاہ جی کا گھرانہ جب سے پڑوس میں آباد ھوا تھا محلے میں غیر محسوس انداز سے چند اچھی روایات کا پھر سے احیاء ھوا تھا ۔ لیکن اس میں سارا کمال ان کے چھوٹے سے کم سن برخودار زین کا تھا۔ وہ تقریبا" ہر روز کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز یا سالن بھلے تھوڑی سی مقدار ہی میں صحیح لیکن ہمسائے میں بانٹنے آتا ۔ بڑی معصومیت سے پلیٹ پکڑاتے ھوئے کہتا ۔۔ " نانا جی نے بھیجا ھے " ہم شکریہ سے رکھ لیتے اور نانا جی کو سلام کا کہتے وہ فورا" وعلیکم السلام کہہ کر پلٹ جاتا۔ کبھی کسی کی ولادت کا ختم کبھی کسی کی شہادت کا ۔۔ ہم بڑوں تک کو معلوم نہ ھوتا لیکن متانت سے رکھ لیتے۔ کبھی ویسے ہی تحفتہ" کہ ہم نے بوٹی چاول بنائے تھے۔ آپ بھی لیں۔
بہت پیارا اور حسین سا معصوم چہرہ تھا لیکن ماں یا نانا کی تربیت بھی خوب تھی ۔ اب شرما شرمی اور بھی کچھ گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا شروع ھو گئے تھے ۔ اور بچے ہی نہی ہم بڑے بھی سلام کرنے میں پہل کرنے لگے تھے۔ لیکن ہم نے اس کے والد کے سواء کم ہی کسی کو دیکھا تھا۔ سید تھے تو پردہ تو سخت تھا ہی ۔ لیکن نانا جی بھی کبھی چھت یا گلی میں نظر نہ آئے ۔ چھت پر بھی وہی بچہ پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتا نظر آتا۔
لیکن آج تو کمال ہی ھو گیا۔ میں چھوٹے شاہ جی سے پلیٹ پکڑ ہی رہا تھا کہ زلزلہ آگیا۔ زلزلہ شدید تھا ۔ میں اور باقی محلے دار تیزی سے باہر کو لپکے ۔ لیکن چھوٹے شاہ جی نے اچانک عجب حرکت کی۔ اس بچے نے بڑی زور سے زمین پر داہنا پاوں اٹھا مارا اور تحمکانہ لہجے میں گویا ھوا ۔
اے زمین مت کر !
دیکھتی نہیں ... ہم کھڑے تو ہیں ؟
زلزلہ تو خیر رک ہی گیا لیکن ہمیں ہنسی آگئی ۔ ہم سب نے ننھے زین کو گھیر لیا ۔ وہ گھر کو پلٹ رہا تھا۔ کہ میں نے پوچھا ۔ شاہ جی اگر یہ آپ کی بات نہ مانتی تو ؟
وہ بے نیازی سے بولا ۔ کیسے نہ مانتی !
میں نے کہا پھر بھی اگر نہ مانتی تو ؟
نہیں نانا جی نے بتایا ھے ایسا نہیں ھو سکتا ۔ عجب یقین و اطمنان تھا لہجے میں اور اک شان_ بے اعتنائی جو ہم بڑوں کو اب چبھ رہی تھی ۔
یار آج اپنے نانا جان سے تو ملواو ۔
ہیں ؟
اب وہ تیزی سے پلٹا تھا اور حیران ہماری جانب دیکھ رہا تھا
آپ لوگ نانا جان سے نہیں ملے ؟
عجب بے یقینی حیرت و اچھنبا تھا اس لہجے میں!
شیخ صاحب بولے یار ہمیں تو وہ کبھی باہر نظر ہی نہیں آئے ؟
آپ سب ان کو نہیں دیکھتے ؟
وہ حیران و پریشان ھو گیا تھا ۔ تاسف اور شدید درد تھا اس لہجے میں ۔
کیونکہ ہم سب یک زبان بولے تھے ۔ نہیں ۔
اچھا ۔۔ پھر آپ لوگ مدینہ منورہ ہی ھو آئیں ۔
ایک سنسنی کی لہر تھی جو میرے رگ و پے میں دوڑ گئی ۔۔۔
 ۔ میں میں نہی رہا ۔
وہ ذات کا ہی نہیں کردار کا بھی سید  تھا۔        

No comments:

Post a Comment