Friday, 30 December 2016

ریاست کے حقوق و فرائض


                                                         


پاکستان آئین کے آرٹیکل-194 38 کے مطابق ریاست عوام کے بنیادی ضروریات زندگی (روٹی، کپڑا، مکان، صحت ،تعلیم اور روزگار کے مواقع) کے ساتھ فلاح و بہبود اور  خوشحالی کی ذمہ دار ہے۔ ریاست پاکستان  کو معرض وجود میں آئے سات دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں مگر ابھی تک شہریوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کی ترقی و خوشحالی میں عوام ہی حکومت کے اصل موجدہوتے ہیں حکومت کی اولین ذمہ دار ی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائض کو ادا کرے۔



                                                                 
   








فلاحی ریاست کے اندر تمام شہری حقوق و فرائض کے اعتبار سے برابری کا درجہ رکھتے ہیں ، امیر و غریب اور حاکم و محکوم میں کوئی تمیز نہیں ہے ۔ قانون اور آئین کی نظر میں ہر شخص پر یکسا ں قانون لا گو ہوتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدل و انصاف کا نظام شفاف اور موثر و جامع طور پر نافذ عمل ہو۔ دین اسلام عدل و انصاف اور مساوات کا درس دیتا ہے اس لئے تمام شہریوں کو بلا تفریق سماجی، معاشی اور اقتصادی حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہو نے چاہئے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست ملک سے جرائم کا خاتمہ کرکے عدل وانصاف کے ساتھ ہر فرد کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ اٹھا سکتی ہے۔


ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت و پارٹی کے لیڈرز اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے عوام کی مجبوریوں کو سولوگن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، شہریوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کے سنہری خواب دیکھتے ہیں ۔ علاقے کا نمائند گان الیکشن مہم میں عوام کے بنیادی حقوق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کے بلند و بالا دعووں کے قصیدے پڑھتے ہیں ،لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان نام نہاد سیاسی لیڈرز کی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے وہ جانتے ہیں کہ پانچ سالہ حکومت میں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے وہ اپنے تمام وعوے وعید کو پش پشت ڈال کر ذاتی مفادات کے لئے کاربندفرمارہتے ہیں۔ منتخب نمائندے سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے کے بعداتنی ہمت نہیں رکھتے کہ وہ عو ام کے مسائل اور فلاح و بہبود کے لئے ا یوان بالا اور اقتدار اعلٰی میں آواز اٹھا سکیں ۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں کے اندر موروثیت کا اصول کارفرما ہے سیاسی جانشین بہت مضبوط و طاقت ور ہونے کی وجہ سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔ کسی سیاسی و پارٹی ورکر، رکن اور منتخب نمائندہ اسمبلی کے پاس جرات نہیں ہے کہ وہ پارٹی لیڈرز کی اجازت کے بغیر اپنے رائے کا اظہار تک سکتے، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں شہشناہ معظم ناراض نہ ہوں جائیں۔

سیاسی پارٹیاں حکومت میں آنے کے لئے اپنی باری کے انتظار کے ساتھ مختلف سیاسی حربوں کا استعمال کرتیں رہتی ہیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ الیکشن کے لئے سیاسی پلے گراؤنڈ کی تیاری ممکن بنائی جا سکے۔ عوام کی ہمدردیاں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں نشہ اقتدار کے لئے یہ سلسلہ اس طرح عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ سیاست کے نام پر ایک دوسرے کے اوپر الزام لگائے جاتے ہیں وہ جانتے ہیں یہی اقتدار میں آنے کا واحد راستہ ہے جن کو کیش کراکر وہ باسانی حکومت کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔

ریاست کے تما م شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پابندی، رکاوٹ، مداخلت کے بغیر باعزت طریقے سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے معاشی سرگرمیوں سر انجام دیں ،حکومت کے تمام ادارے ، بیورکریسی اور دیگرمشینری آئین پاکستان کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں تمام پبلیک ہولڈر کی ذمہ داری ہے کہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کو بھرپور مدد کے ساتھ رہنمائی فراہم کریں لیکن عملی طور پر ایسا بہت کم نظر آتا ہے۔ عوام کے معاشی حقوق اصل میں معاشی آزادی سے منسلک ہیں ،عوام کے راستے میں رکاوٹیں ، پابندی اور مسائل کون پیدا کرتا ہے وہی جن کے پاس قوت، طاقت اور اختیار ہو، یہ پاور حکومت اور اس کے ماتحت ادارو ں وگروہوں کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وہ عناصر جو حکومتی سر پرستی کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات کے لئے معاشرہ کے توازن کو بگاڑتے ہوتے شہریوں کے حقوق سلب کرنے میں مشغول ہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور سفارش کا استعمال عام سی روایات ہیں۔

دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اندر عوام ہی ریاست کا اصل منبع ہوتے ہیں ایک فلاحی ریاست کے اندرشہریوں سے ٹیکس کی مدد میں اکٹھی ہوئی رقم کا بڑا حصہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے اوپر خرچ ہوتا ہے ہمارے یہاں ایساہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری روزگار کے نت نئے موقعے پیدا کرناہے، کارخانوں ، فیکٹریاں اور صنعتوں کا قیام جس سے افراد زر میں کمی واقع ہوگی ، پڑھ لکھے افراد کے ساتھ ناخواندہ بھی بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے معاشرے میں اپنا رول ادا کر سکیں۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی کی سطح 57 فیصد جو بہت ہی کم ہے اس لئے ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ناخواندگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی عدم توجہ، یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ، دیہی علاقاجات میں خواتین کا تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی ہونا، گاؤں و دیہاتوں میں وسائل و سہولیات کی کمی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، تعلیمی بجٹ فنڈ میں خرد برد جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کے 45 فیصد افراد غربت کا شکار ہونے کے باعث آمدنی بہت ہی قلیل ہے اس لئے وہ تعلیم سے زیادہ مادی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے بارے میں عمومی یہ رویہ بھی ناخواندگی میں اضافہ کاسبب ہے جب لوگ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کو بے روزگار دیکھتے ہیں تو تعلیم کے حصول کے لئے ان کارجحان منفی ہو جاتا ہے وہ تعلیم پرپیسہ خرچ کرناضائع سمجھتے ہوئے اپنےبچوں کو کام کاج اور ہنرپر مجبور کرتے ہیں تاکہ روزمرہ کے خرچے کے سا تھ ساتھ ہنر سیکھ کر اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو جائے۔ پاکستان کو بہت سے تعلیمی مسائل کا سامنا ہے جن کا حل چند اقدامات کے ذریعے ممکن ہے جن میں تعلیمی اداروں میں اضافہ کے ساتھ مفت تعلیم ، آمدورفت کی سہولیات، تعلیم نسواں کا حکومتی سرپرستی میں اہتمام، بچوں کے وظیفے، میرٹ پر استاتذہ اکرام کا تقرر، والدین میں تعلیمی شعور کی بیداری، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ جیسے اقدامات پر عمل درآمد کرکے تعلیمی پسماندگی کے اوپر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں حکومت کی عدم توجہ کی بدولت صحت عامہ کی حالت انتہائی مخدوش ہے ڈاکٹرز اور استا تذہ اکرام ہر معاشرے میں مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں جو آنے والی نسلوں کی تعمیری و ترقی میں قلیدی رُول رکھتے ہیں۔ ملک میں ہر سال ہزاروں ڈاکٹرز اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں جن کی اکثریت فیملی ڈاکٹرز کی ہوتی ہے جو پہلے سے موجود کلینک پر اپنی پریکٹس شروع کر دیتے ہیں ،بعض ڈاکٹرز حضرات کی خواہش بیرون ملک میں اپنا پروفیشن صلاحیتوں کا اظہاراولین ترجیح ہوتی ہے ، نیز ایسے ڈاکٹرز جو سرکاری ہسپتالوں میں سروسز کے حامل ہوتے ہیں وہ حکومت کی ملی بھگت سے اپنی پوسٹنگ بڑے شہروں میں کروا لیتے ہیں۔ وسائل و سہولیات کی کمی کے باعث دیہی علاقاجات میں صحت کا فقدان پایا جاتا ہے، مجبورا گاؤں ، دیہاتوں اور مضافاتی علاقے کے باسیوں کو علاج و معالج کے لئے شہروں کا رخِ کرنا پڑتا ہے ۔ ملک میں ایک ہزار ہسپتالوں میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائدبیڈز کی گنجائش موجود ہے ، پانچ ہزار سے زیادہ سرکاری ڈسپنسریاں، رول ہیلتھ سینٹر کی تعداد تقریبا تین ہزار سے زائدجب کہ ٹی بی سینٹر کی تعداد چار سو سے زائد ہیں، لیکن اکثر سرکاری سینٹر بند ملتے ہیں یا وہاں نرسنگ، پیرامیڈیکل سٹاف کا نمائندہ ہی ڈاکٹرز صاحبان کی سیٹ پر براجماں ہوتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کا غائب ہونا، لیبارٹری ٹیسٹ کا باہر سے کروانا، سینئر ڈاکڑز کا مریضوں کو چیک اپ نہ کرنا، ادویات کے لئے مخصوص کمپنی کے نسخہ پر اصرار کرنا، وقت کی پابندی جیسے مسائل توجہ طلب ہیں۔ صحت کے شعبےمیں گڈ گروننس کے ذریعے مطلوبہ کامیابی حاصل کر کے صحت عامہ کے مسائل کو باسانی حل کیاجا سکتا ہے

تحریر: نجم الثاقب (کالم نگار، شاعر، رائیٹر





Friday, 23 December 2016

برما کے مظلوم مسلمان عالم اسلام کی طرف دیکھ رہے ہی

   

                                                                                                                                                             

Tuesday, 20 December 2016

پاکستان کو اِن موسموں سے بچانا ہو گا

Monday, 19 December 2016

Andrey Karlov (L), the Russian ambassador to Ankara, lying on the floor after being shot by a gunman (R) during an attack during a public event in Ankara.

        
ترکی میں روس سفیراندرے کارلوف کوایک حملہ آورنے فائرنگ کرکے قتل کیاتواس شخص نے روسی سفیرپرفائرنگ کرنے سے قبل
 اللہ اکبراورالیپوکابدلہ لینے کانعرہ لگایااوراس کے فوری بعد تقریب میں خطاب کرنے والے روسی سفیرآندرے کارلوف پرفائرنگ کردی  جس سے روسی سفیرشدیدزخمی ہوگئے  جبکہ حملہ آورکوپولیس نے موقع پرہی فائرنگ کرکے ہلاک کردیا






Andrey Karlov was shot dead at an art gallery in Ankara by a man believed to be Mevlűt Mert Altintaş, 22, an off-duty Turkish police officer. Altintaş reportedly shouted: “We die in Aleppo, you die here”, before shooting the ambassador repeatedly in the back. The Russian Foreign Ministry confirmed shortly after that Mr Karlov had died from his wounds and called the killing “a terrorist act”. Foreign ministry spokeswoman Maria Zakharova said: "Today in Ankara as a result of an attack, the ambassador of the Russian Federation to Turkey, Andrey Gennadyevich Karlov, received a wound from which he died.


Tuesday, 13 December 2016

ریاست کی اصل ذمہ داریاں اورحقوق







ریاست کی اصل ذمہ داریاں اورحقوق 

 پاکستان آئین کے آرٹیکل-194 38 کے مطابق ریاست عوام کے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی کی اصل ذمہ دار ہے۔ریاست پاکستان  کو معرض وجود میں آئے سات دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں مگر ابھی تک شہریوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک کی ترقی و خوشحالی میں عوام ہی حکومت کے اصل موجدہوتے ہیں حکومت کی اولین ذمہ دار ی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائض کو ادا کرے۔ 


     

فلاحی ریاست کے اندر تمام شہری حقوق و فرائض کے اعتبار سے برابری کا درجہ رکھتے 
ہیں ، امیر و غریب اور حاکم و محکوم میں کوئی تمیز نہیں ہے ۔ قانون اور آئین کی نظر میں ہر شخص پر یکسا ں قانون لا گو ہوتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدل و انصاف کا نظام شفاف اور موثر و جامع طور پر نافذ عمل ہو۔ دین اسلام عدل و انصاف اور مساوات کا درس دیتا ہے اس لئے تمام شہریوں کو بلا تفریق سماجی، معاشی اور اقتصادی حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہو نے چاہئے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست ملک سے جرائم کا خاتمہ کرکے عدل وانصاف کے ساتھ ہر فرد کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ اٹھا سکتی ہے۔ 
ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت و پارٹی کے لیڈرز اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے عوام کی مجبوریوں کو سولوگن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، شہریوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کے سنہری خواب دیکھتے ہیں ۔ علاقے کا نمائند گان الیکشن مہم میں عوام کے بنیادی حقوق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کے بلند و بالا دعووں کے قصیدے پڑھتے ہیں ،لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان نام نہاد سیاسی لیڈرز کی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے وہ جانتے ہیں کہ پانچ سالہ حکومت میں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے وہ اپنے تمام وعوے وعید کو پش پشت ڈال کر ذاتی مفادات کے لئے کاربندفرمارہتے ہیں۔ منتخب نمائندے سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے کے بعداتنی ہمت نہیں رکھتے کہ وہ عو ام کے مسائل اور فلاح و بہبود کے لئے ا یوان بالا اور اقتدار اعلٰی میں آواز اٹھا سکیں ۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں کے اندر موروثیت کا اصول کارفرما ہے سیاسی جانشین بہت مضبوط و طاقت ور ہونے کی وجہ سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔ کسی سیاسی و پارٹی ورکر، رکن اور منتخب نمائندہ اسمبلی کے پاس جرات نہیں ہے کہ وہ پارٹی لیڈرز کی اجازت کے بغیر اپنے رائے کا اظہار تک سکتے، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں شہشناہ معظم ناراض نہ ہوں جائیں۔
سیاسی پارٹیاں حکومت میں آنے کے لئے اپنی باری کے انتظار کے ساتھ مختلف سیاسی حربوں کا استعمال کرتیں رہتی ہیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ الیکشن کے لئے سیاسی پلے گراؤنڈ کی تیاری ممکن بنائی جا سکے۔ عوام کی ہمدردیاں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں نشہ اقتدار کے لئے یہ سلسلہ اس طرح عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ سیاست کے نام پر ایک دوسرے کے اوپر الزام لگائے جاتے ہیں وہ جانتے ہیں یہی اقتدار میں آنے کا واحد راستہ ہے جن کو کیش کراکر وہ باسانی حکومت کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔
ریاست کے تما م شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پابندی، رکاوٹ، مداخلت کے بغیر باعزت طریقے سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے معاشی سرگرمیوں سر انجام دیں ،حکومت کے تمام ادارے ، بیورکریسی اور دیگرمشینری آئین پاکستان کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں تمام پبلیک ہولڈر کی ذمہ داری ہے کہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کو بھرپور مدد کے ساتھ رہنمائی فراہم کریں لیکن عملی طور پر ایسا بہت کم نظر آتا ہے۔ عوام کے معاشی حقوق اصل میں معاشی آزادی سے منسلک ہیں ،عوام کے راستے میں رکاوٹیں ، پابندی اور مسائل کون پیدا کرتا ہے وہی جن کے پاس قوت، طاقت اور اختیار ہو، یہ پاور حکومت اور اس کے ماتحت ادارو ں وگروہوں کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وہ عناصر جو حکومتی سر پرستی کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات کے لئے معاشرہ کے توازن کو بگاڑتے ہوتے شہریوں کے حقوق سلب کرنے میں مشغول ہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور سفارش کا استعمال عام سی روایات ہیں۔ 
دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اندر عوام ہی ریاست کا اصل منبع ہوتے ہیں ایک فلاحی ریاست کے اندرشہریوں سے ٹیکس کی مدد میں اکٹھی ہوئی رقم کا بڑا حصہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے اوپر خرچ ہوتا ہے ہمارے یہاں ایساہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری روزگار کے نت نئے موقعے پیدا کرناہے، کارخانوں ، فیکٹریاں اور صنعتوں کا قیام جس سے افراد زر میں کمی واقع ہوگی ، پڑھ لکھے افراد کے ساتھ ناخواندہ بھی بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے معاشرے میں اپنا رول ادا کر سکیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی کی سطح 57 فیصد جو بہت ہی کم ہے اس لئے ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ناخواندگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی عدم توجہ، یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ، دیہی علاقاجات میں خواتین کا تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی ہونا، گاؤں و دیہاتوں میں وسائل و سہولیات کی کمی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، تعلیمی بجٹ فنڈ میں خرد برد جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کے 45 فیصد افراد غربت کا شکار ہونے کے باعث آمدنی بہت ہی قلیل ہے اس لئے وہ تعلیم سے زیادہ مادی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے بارے میں عمومی یہ رویہ بھی ناخواندگی میں اضافہ کاسبب ہے جب لوگ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کو بے روزگار دیکھتے ہیں تو تعلیم کے حصول کے لئے ان کارجحان منفی ہو جاتا ہے وہ تعلیم پرپیسہ خرچ کرناضائع سمجھتے ہوئے اپنے

بچوں کو کام کاج اور ہنرپر مجبور کرتے ہیں تاکہ روزمرہ کے خرچے کے سا تھ ساتھ ہنر سیکھ کر اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو جائے۔ پاکستان کو بہت سے تعلیمی مسائل کا سامنا ہے جن کا حل چند اقدامات کے ذریعے ممکن ہے جن میں تعلیمی اداروں میں اضافہ کے ساتھ مفت تعلیم ، آمدورفت کی سہولیات، تعلیم نسواں کا حکومتی سرپرستی میں اہتمام، بچوں کے وظیفے، میرٹ پر استاتذہ اکرام کا تقرر، والدین میں تعلیمی شعور کی بیداری، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ جیسے اقدامات پر عمل درآمد کرکے تعلیمی پسماندگی کے اوپر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں حکومت کی عدم توجہ کی بدولت صحت عامہ کی حالت انتہائی مخدوش ہے ڈاکٹرز اور استا تذہ اکرام ہر معاشرے میں مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں جو آنے والی نسلوں کی تعمیری و ترقی میں قلیدی رُول رکھتے ہیں۔ ملک میں ہر سال ہزاروں ڈاکٹرز اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں جن کی اکثریت فیملی ڈاکٹرز کی ہوتی ہے جو پہلے سے موجود کلینک پر اپنی پریکٹس شروع کر دیتے ہیں ،بعض ڈاکٹرز حضرات کی خواہش بیرون ملک میں اپنا پروفیشن صلاحیتوں کا اظہاراولین ترجیح ہوتی ہے ، نیز ایسے ڈاکٹرز جو سرکاری ہسپتالوں میں سروسز کے حامل ہوتے ہیں وہ حکومت کی ملی بھگت سے اپنی پوسٹنگ بڑے شہروں میں کروا لیتے ہیں۔ وسائل و سہولیات کی کمی کے باعث دیہی علاقاجات میں صحت کا فقدان پایا جاتا ہے، مجبورا گاؤں ، دیہاتوں اور مضافاتی علاقے کے باسیوں کو علاج و معالج کے لئے شہروں کا رخِ کرنا پڑتا ہے ۔ ملک میں ایک ہزار ہسپتالوں میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائدبیڈز کی گنجائش موجود ہے ، پانچ ہزار سے زیادہ سرکاری ڈسپنسریاں، رول ہیلتھ سینٹر کی تعداد تقریبا تین ہزار سے زائدجب کہ ٹی بی سینٹر کی تعداد چار سو سے زائد ہیں، لیکن اکثر سرکاری سینٹر بند ملتے ہیں یا وہاں نرسنگ، پیرامیڈیکل سٹاف کا نمائندہ ہی ڈاکٹرز صاحبان کی سیٹ پر براجماں ہوتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کا غائب ہونا، لیبارٹری ٹیسٹ کا باہر سے کروانا، سینئر ڈاکڑز کا مریضوں کو چیک اپ نہ کرنا، ادویات کے لئے مخصوص کمپنی کے نسخہ پر اصرار کرنا، وقت کی پابندی جیسے مسائل توجہ طلب ہیں۔ صحت کے شعبے میں گڈ گروننس کے ذریعے مطلوبہ کامیابی حاصل کر کے صحت عامہ کے مسائل کو باسانی حل کیاجا سکتا ہے۔ 

Saturday, 10 December 2016

Professor Karrar Hussain



Professor Karrar Hussain
Professor Karrar Hussain
بلوچستان میں قوم پرستی کے عروج کا زمانہ  تھا  کہ بلوچستان کی قیادت نے   کراچی کے اردو بولنے والے  ایک استاد کو بلوچستان  یونیورسٹی کا وائس چانسلر  بنا نے کا فیصلہ کیا ۔ کوئٹہ پہنچنے پر استاد کا شاندار استقبال کیاگیا ۔  استقبال کرنے والوں میں گورنرغوث بخش بزنجو، وزیر اعلیٰ  عطا اللہ مینگل   اور وزیر تعلیم   گل خاں نصیر شامل تھے۔
 پھر جب  وہ استاد کوئٹہ سے  کراچی واپس روانہ ہوئے تو رخصت کرنے سارا شہر امنڈ  آیا۔
 یہ  سراپا محبت  استاد تھے  پروفیسر کرار حسین ۔۔۔

 کرار حسین 8 ستمبر، 1911ء کو کوٹہ( راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت میرٹھہ میں ہوئی۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)، ایم اے (انگریزی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر خاکسار تحریک سے  وابستہ ہوئے، اس کے بعد کسی اور جماعت کی طرف نہیں دیکھا ،میرٹھہ سے خاکسار تحریک کا ترجمان اخبار بھی جاری کیا تھا۔۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے تدریس کو اپنا شغل بنایا۔ میرٹھہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوئے۔ وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تھےلیکن جنوری 1948 میں گاندھی جی کے قتل کے بعد مسلمانوں کے بارے میں کچھہ ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ ہندوستان بھر کےنمایاں اور مشہور مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کرار صاحب بھی چند دن جیل رہے ۔ اس واقعہ کے بعد وہ ہجرت کرکے  پاکستان آگئے۔
 اسلامیہ کالج کراچی کے بعد خیر پور، میر پور خاص، کوئٹہ  کے گورنمنٹ کالجوں  کے پرنسپل رہے۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے بعد کچھہ عرصہ  جامعہ ملیہ کراچی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔  بعد میں کراچی میں اسلامی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔
 کرارحسین اسلام میں ترقی پسند نقطۂ نظررکھتے  تھے ۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی، مطالعہ قرآن اور غالب: سب اچھا کہیں جسے، سوالات و خیالات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  ان کی تقاریر کے کئی مجموعے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر کرار حسین  نے7 نومبر، 1999ء کو کراچی میں وفات پائی اور سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔۔ جوہر حسین ، تاج حیدر ، 
شائستہ زیدی، اور صادقہ صلاح الدین ان کی قابل ِ فخر اولاد ہی



Sunday, 4 December 2016

پاکستان کا مجوزہ وزیر آعظم : چوہدری نثار احمد

                                                                                                                                                                                                                                                                                                
مڈل ایسٹ ویڈیو کے تجزیہ نگار کی جانب سے 
حکومت پاکستان کی تازہ ترین صورتحال، 
وزیر اعظم نواز شریف پہ استعفے کا دبآؤ،
جماعت اسلامی کی سپرئم کورٹ میں نئی درخواست اور نئے وزیر اعظم کے کیلئے جناب چوہدری نثار احمد کے نام کی تجویز 

                                                   
                                       


                                          

                                                            
                                                                                                                                             
‎اگر وزیراعظم نااہل ہوگئے تو نیا وزیراعظم کون ہوگا؟ ن لیگ کے اندر نئی کہانی شروع،جیسےہی پاناما لیکس کا مقدمہ آگے بڑھ رہا ہے ،مقدمے میں تضادات کی وجہ سے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی یا سبکدوشی کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے استعفیٰ اورمسلم لیگ ن سے ہی نیا وزیر اعظم لانے کا مطالبہ زور پکڑ رہاہے تفصیلات کے مطابق پانامہ لیکس کے معاملے کے بعد پاکستانی حکومت، مسلم لیگ ن اور شریف خاندان شدید تذبذب کا شکار ہوچکا ہے۔ اندرون خانہ ایک نئی آپشن گردش کررہی ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف وزارت عظمی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اور
‎ان کی جگہ مسلم لیگ ن سے ہی کوئی دوسرا اہم
‎رہنما یہ منصب سنبھال لے۔ ذرائع کے مطابق موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے اس آپشن کو بہترین قرار دیا جارہا ہے۔ اگر میاں محمد نوازشریف وزارت عظمی سے مستعفی ہوگئے تو وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد وزارت عظمی کے سب سے مضبوط اْمیدوار ہوں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں نے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو اپنے منصب سے الگ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر اپنے منصب سے مستعفی ہوکر پارٹی کے کسی سینئر رہنما کو وزیر اعظم منتخب کریں تاکہ ن لیگ کے گرتی ہوئی حکومت اور ساکھ کو بچایا جاسکے۔نئے وزیراعظم کیلئے چوہدری نثار،اسحاق ڈار اور حمزہ شہبازشریف کا نام بھی زیر گردش ہے ۔
مگر لگتا یوں ھے کہ نواز  شریف کے بعد وزارت عظمی کا تاج جناب چوہدری نثار کہ سر پہ ہی سجے گا۔

                                                                                    

 م اپنے ویورز کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ  جماعت اسلامی نے بھی پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کیلئے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کر دی ہے۔جماعت اسلامی کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی متفرق درخواست میں استدعا کی گئی کہ انکوائری کمیشن نیب اور ایف آئی اے کو ضروری کارروائی کی ہدایات دے۔ تحقیقاتی ادارے تمام ریکارڈ کمیشن کو پیش کریں۔ انکوائری کمیشن کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں۔ ٗکمیشن کو ٹیکس گوشوارے اور جائیداد کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔ یہ بھی ٗاستدعا کی گئی کہ کمیشن تمام دستاویزات کا فرانزک آڈٹ کرائے۔ کمیشن بوقت ضرورت دوسرے ممالک سے بھی دستاویزات منگوائے۔ پانامہ میں جن افراد کا نام آیا ہے کمیشن انہیں فریق بنائے۔ کمیشن اپنا کام مقررہ مدت کے اندر مکمل کرے۔ ذیلی کمیشن بھی ججزپر مشتمل ہو، بوقت ضرورت کمیشن ذیلی کمیشن بھی تشکیل دے۔

   

                                                                                                                                                                            ھم مڈل ایسٹ ویڈیو کے محترم قارئین کو یہ بھی   بتلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف میں وہ تمام خامیاں بررجہ اُتم موجود ھیں جو ایک خائن حُکمران میں ھونے چاہیں مگر اس کے ساتھ ھی وہ ایک خوش قسمت انسان بھی ھیں کہ اس قسم کے تمام ناروا حالات میں پہلے  بھی نکل چُکیے ھیں اور اس دفعہ بھی اُنہوں نے اپنی یاوری کے لئے قطر کے شہزادہ کو پاکستان مدعو کیا 
ھے کے پانامہ پیپرز کے سلسلہ میں شاید اُن کی گواہی انہیں بچا سکے۔        
                                                                                                                                     
                                
                                                                                                                                                             
                
                                                                                                                                                                            ہر حال آگر اس دفعہ نواز شریف اگر بچ نہ پاۓ تواس تمام مندرجہ بالا صورتحال کے تناظر میں وزارت عظمی کےاگلے مضبوط امیدوار (پاکستان کے موجودہ وزیر داخلہ) جناب چوہدری نثار آحمد وزیر آعظم پاکستان ہی ھونگے۔ 
                                    

Thursday, 24 November 2016

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور نظریات


                                                                                                                                                   
8 نومبر 2016 امریکہ میں عوام کی اکثریت نے حق رائے دہی کے ذریعے ملک کا 45سربراہ ڈ ونلڈ ٹرمپ کو منتخب کیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے والد فریڈرک کرائسٹ ٹرمپ کا تعلق کوئنز سے تھا ، ڈونلڈ ٹرمپ بچپن سے ہی تیز و تند مزاج سے خاندان بھر میں مشہورہوئے۔ 1964 میں ابتدائی سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کا رخ گلیمر کی دنیا کی طرف ہو گیا، فلمی شوق کے باعث فورڈہم یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا ،اس کے دو سال بعدپینسلوینیا یونیورسٹی میں وارٹن بزنس سے تعلیم مکمل کی۔ 1971 میں ان کی فیملی نیویارک (مین ہیٹن) میں شفٹ ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے روابط بزنس مین و کاروباری افراد کے ساتھ قائم ہونے شروع ہو گئے، جس کے بناء پر مین ہیٹن 42 وین سیڑیٹ پر کموڈور ہوٹل خریدا یہ ٹرمپ کی تجارتی کامیابی کا پہلا قدم 

                                                                                                                                 



ثابت ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی تینوں بیویوں کا تعلق شوبز اور ماڈلنگ انڈسٹری سے ہے۔ 

1977  ٹرمپ نے پہلی شادی چیک ریپلک کی ماڈل خاتون ایواناز یلنسیکووا سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہیں ۔ 1988 می امریکی شہریت ملی اور ان کی مہنگی طلاق جو تقریبا ساڑھے تین لاگھ ڈالر کے ساتھ 1992 میں مارلا میپلز کے معاشقے پر ختم ہوئی۔1993 میں ٹرمپ نے مارلا میپلز کے ساتھ شادی کی جو پروفیشن کے اعتبار سے ماڈ لر اور تعلق جارجیا سے تھا۔ تعلقات کی 
خرابی کے باعث چھ سال کے بعد تیسری شادی میلانیاناس کے ساتھ ہوئی ۔ 
                                                                                               
                                                                                                                               
                                                                                                                                               


1982 میں مین ہیٹن پر28 منزلہ ٹرمپ ٹاور کا قیام ہواجس کی تعمیر میں کئی تنازعات نے جنم لیا ۔ ٹاور کی تکمیل پر گرینڈ پارٹی کا اہتمام کیا گیا نیویارک کے میئرایڈ کوچ سمیت 700مہمانوں نے شرکت کی ۔ ٹاور کی تعمیر سے ٹرمپ کا نام مین ہیٹن کی تاریخ میں رقم ہو گا اور وہ شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے لگے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1987 میں اپنی پہلی کتاب (دی آرٹ آف ڈیل) میں اپنی کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے طریقوں سے پردہ اٹھایا۔ اس کتاب سے ٹرمپ کو رائیلٹی کے ساتھ خوب شہرت بھی ملی یہ کتاب نیویارک کی بیسٹ سیلر بک میں سے ایک کتاب بنی ۔ تجارتی حلقوں میں ٹرمپ نے تجربہ کار بزنس مین ہونے کا لوہا منوایا۔ ڈونلذ ٹرمپ نے کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاتے ہوئے ائیر لائنز کا قیام شروع کرنے کے بعد سیکنڑوں تاریخی عمارتیں کی تعمیر کا کام مکمل کیا۔ 
1990 کی دہائی ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے بہت ہی نقصان دہ اور افسوسناک ثابت ہوا ۔نیویارک کا ر یٹل سٹیٹ بازار شدید مندی کا شکار ہوا ۔ 1991 اٹلانٹک سٹی میں واقع تاج محل کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا۔ اس دہائی کے ہچکولے کھانے کے بعد ٹرمپ دوبارہ کمر بستہ ہوئے انہوں نے اپنی یاٹ اور ائیر لائنز کو فروخت کیا ۔ جوانی سے رنگ مزاج شخصیت سے پہچانے جانے والے ٹرمپ نے اس بار انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں اپنی قسمت آزمانے کا ارادہ کیا۔ مس یونیورس کی فرنچائز پر قبضہ جمایا،جس میں مس امریکہ اور مس ٹین امریکہ مقابلہ حسن بھی شامل حال رہا ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دوران (دی آرٹ آف کم بیک) اپنی دوسری کتاب کو شائع کیا اس کتاب میں اپنی بیوی مارلا میپلز 1993-97 کے ساتھ کئی لمحوں و واقعات کو قلم بند کیا جس سے ٹرمپ کو خوب پیزرائی کے ساتھ رائیلٹی بھی ملی اور ٹرمپ قرضوں کے چنگل سے آزاد ہوئے۔ 
1999 جون میں ٹرمپ کے والد فریڈرک کرائسٹ ٹرمپ کا انتقال ہو ا ، ان کے جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی جوئینر نے ان کو تعزیت خط بھی ارسال کیا۔والد کے ورثے میں انہیں تقریبا 300 ملین ڈالر ملے۔2000 میں سیاست میں قدم رکھا اور ہیلیری کے خلاف صدرارتی مہم کا حصہ بنے ۔ ٹی شو د ی اپرینٹس میں مالیاتی شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور کئی ایگزیکٹو کردار ادا کئے۔ یہ شو بہت ہی پاپولر ہوا اور اس سے ٹرمپ کو عزت کے ساتھ ساتھ خوب پیسہ ملا۔ ہالی ورڈ آف اک فیم نے 2007 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ستارہ سے بھی نوازگیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی یونیورسٹی متنازعات کا شکار رہی ۔ یونیورسٹی میں طلبہ علموں کو گریجوئیٹ اور پوسٹ گریجوئیٹ پروگرام آفر کئے گئے جن میں طلبہ کو ٹرمپ کی مالیاتی کامیابی کے راز سیکھائے جاتے تھے۔ طلبہ کے مقدمات کے بعد یونیورسٹی کو بند کرانا پڑا۔ 2007 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے والدہ کے نام پر سکاٹ لینڈ میں ایبرڈین کے مقام پر گالف کورس خریدا جس کے دوران مقامی برادری اور ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والوں اداروں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا 2012 میں تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کو کھول دیا گیا۔ 
صداراتی الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی مضبوط امریکی خاتون ہیلری کلنٹن کو ہر ا کر ساری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بہت سے اہم اعلانات ، نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جس کی بناء پر امریکی کی اکثریت نے ان کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا زیادہ فوکس ریاست کے شہری علاقہ جات کے ساتھ دیہادت اور قصبوں کو کیا ۔ ہیلری کارحجان شہری ایریز کی طرف تھا۔ جمہوری ممالک کی روایات کے مطابق ہیلری نے الیکشن رزلٹ کو مانتے ہوئے شکست تسلیم کی اور ڈونلڈٹرمپ کو مبارک باد پیش کی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخاب کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ٹرمپ کے خلاف بڑے شہروں میں افراد سڑکوں میں احتجاج کر رہے ہیں۔ 
امریکہ کی ریاست کے اندر بہت سے دوسری مذاہب و اقوام کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں سیاہ اور سفید فارم آباد ہیں۔ آج امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں امریکی شہریوں کے ساتھ دوسری قوموں کا بڑا اہم رول ہے۔ حالیہ صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ نے آئی سولیشن پالیسی کو اپناتے ہوئے فرقہ بندی اور تعصبت کوابھاتے ہوئے نفرت پسندی کو خوب اجاگر کیا،جس سے پوری ریاست کے اندر نسلی تضادات کی فضا قائم ہوئی۔ ٹرمپ نے زیادہ تر اپنا ٹارگٹ کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ افراد کو بنایا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی پالیسوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے دیگر ممالک سے قائم شدہ پالیسوں اور تعاون پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسے امریکی عوام کا نقصان قرار د یا اور فرمان جاری کیا کہ میرے اقتدار میں آنے کے بعد تمام پچھلی پالیسوں کو ری ڈو کیا جائے گا۔ پاکستان کے بارے میں سخت موقف اپناتے ہوئے امداد کے تمام منصوبوں کو فوری طور پر ختم کر نے کا اعلان کیا ، دہشت گردی کے خلاف اسپشل قانون معترف کرنے کا ارادہ کیا۔ 
بھارت کے ساتھ اپنے روابط مزید بڑھانے کی نوعید بھی سنائی، امریکہ اور بھارت دونوں اہم اتحادی ہونے کے ساتھ اسٹر یٹجک پارٹنر ہیں ۔ بھارت 30ملین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ امریکہ سے خرید رہا ہے ۔ مودی اور ٹرمپ دونوں انتہا پسندی پالیسی کے فالور ہیں جس سے بھی امریکی ساخت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے نہ صرف امریکی معاشرے میں کشیدگی کا اضافہ ہوا سیاہ اور سفید فارم میں نفرت بڑھنے لگی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران تمام رہائش پذیر مہاجرین کو ریاست چھوڑنے کا فرمان بھی جاری کیا ۔ میکسیکسزکے بارے میں حکومتی کی موجودہ پالیسی کو رد کرتے ہوئے میکسکو کے ساتھ تمام راستے دیوار سے بند کر کے تمام میکسیکسز کو ملک بدر کا عندیہ دیا۔ ماضی میں امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں بڑا رول میکسیکز کا رہا ہے حالیہ اقدامات کے اٹھائے جانے پر لیبر کی کمی کے باعث امریکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سیاہ فارم کو پروموٹ کرکے گریٹر امریکہ کا پلان رکھتے ہیں جو کسی صورت بھی امریکہ کی بقاء کا حصہ نہیں ہو سکتاہے۔ 
ٹرمپ اپنے بیانات کے اندر امن وسکون اور سلامتی کے ساتھ اپنے ملک میں معاشی ترقی کے اقدامات پر عمل درآمد کے خواہاں ہیں ۔ان کے خیال میں امریکی عوام نہیں چاہتی ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کی بقاء کی جنگ لڑے ۔ موجودہ صدر اوبامہ کی انہیں پالیسوں کے باعث امریکی معیشت کا گراف نیچے کی طرف آیا ہے۔ امریکہ کے اندر فرد واحد کے پاس مختار کل کا اختیار نہیں، ایوان نمائندے گان کی اکثریتی رائے کے مطابق فیصلے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ 
ٹرمپ نے نیو کلیئر ایران معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے فورا ختم کرنے کا کہا ہے جس کا شدید دباؤ یورپی ممالک کو برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جن کی کاوشیوں سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام آگے بڑھانے سے منجد کیاگیا ہے۔ ایران پر دوبارہ پابندی لاحق ہوئی تو معاملہ دوبارہ شدت نوعیت اختیار کر سکتا ہے ۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران نیٹو ممالک پر تنقید کرتے ہوئے تجارتی پالیسی کا اختیار اپنے پاس رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ تجارت کے حوالے سے اپنی مرضی کی شراکت کا قانون کا نافذ عمل پذیر ہو گیا۔ 
ٹرمپ نے مسلم کیمونٹی ،مسلمان اور خواتین کو شدید نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے امریکہ کو مضبوط کرنے کیلئے ایسے اقدامات کا اعلان کیا جس سے عوام میں ہمدردری کا عناصر اُبھارا جائے جس سے امریکی انہیں اپنا خیر خواہ سمجھیں ، جبکہ ہیلری کے بارے میں وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ اوبامہ کی باقیات و پالیسوں کو آئندہ بھی قائم و دائم رکھے گیءں۔
امریکہ میں کئی عرصہ سے ری پبلک پارٹی کا ہولڈ پایا جا تا ہے ، اس جماعت کے نمائندے ایوان اور سینٹ کی پالیسوں پر قابض ہیں ۔امریکی کے مطابق اوبامہ قوم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اس کا فائدہ ٹرمپ نے جارحانہ لہجہ او ر قومیت پسندی کے طور پر اٹھایا اب یہ آنے والا وقت ، حالات اور واقعات ہی فیصلہ کرے گا کہ ٹرمپ کے نظریات اور، خیالات امریکی ریاست کی خوشحالی و ترقی میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ 
میری اللہ تعالی سے دعا ہے وہ ہمیں سچ بولنے، کہنے اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔    

Wednesday, 16 November 2016

Donald Trump

So little thoughts about the new president, in my person opinion Donald trump is not a racist person question is will he be good for the world or bad who knows, we couldn't predict if Hillary could have been any better!  To me trump is one of the smartest business and not political person he studied very well what he had to do to become USA president and what is the WHITE American nation is looking for as their leader, he hit every single hit buttons that could work for in his favour, he knew white Americans are upset about 4 main things, which are racism among Muslim, Spanish and blacks! So what he did to gain their vote was hit those targets with guts and no shame, he brought up Isis, Mexican immigrants, and black racism which have been going on for centuries in USA. So with that been said yes he is a smart leader and did what he had to do to gain all the votes.  To be successful you have to do everything you can do in your power no matter what it takes.  If Bernie or Hillary would have hit these topics since day one of their campaign they also would have great chance to win election regardless if trump was their competition or not.
Taimoor Ahmed