ماضی کابرما اور آج کامیانمار براعظم ایشیاء کا غریب اور پسماندہ ترین ملک ہے۔ جغرافیائی طوراس کی سرحدیں چین، بنگلا دیش، روس، تھائی لینڈ اور عرب ممالک سے ملتی ہیں۔ 6کڑور سے زیادہ آبادی والے اس ملک کا رقبہ 6 لاکھ 77ہزار مربع کلومیڑہے۔ ریاست بدحالی اور افلاس کے باوجود اپنا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ برما میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں لیکن حالیہ مردم شماری کے مطابق 50 فیصد بدھ پرست اور صرف 5 فیصد مسلمان یہاں کے شہری ہیں جب کہ اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کی مطابق 1 کروڑسے زیادہ مسلمان میانمار میں آباد ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ مسلمان جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کے حقوق و فرائض سے معذور رکھا گیا ۔ برما کی حکومت کی طرف سے بر ملا اعلان کیا گیا کہ مسلمان جو یہاں اآباد ہیں وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ برما صدر تھین سین کے نظریات کے مطابق مسلمانوں کو کوئی حقوق ٹ نہیں کہ وہ یہاں کے باشندے بن کر رہ سکیں۔ ان کے تحفظ کا ایک راستہ ہے کہ وہ شہروں کو چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں چلے جائیں یا برما کو چھوڑ کر چلیں جائیں۔
روہینگیا شہر مسلم اآبادی کا اکژیتی علاقے کے شہریوں کی تحفظ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے 45 ہزار بچوں کا اندراج نہیں کیا گیا مسلم پر پابندی لگائی کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے ۔ 1982 میں قیام شدہ قانون کے مطابق روہیگنا کے پیداہونے والے تمام بچے برمی شہری نہیں ہیں انہیں حکومت کی جانب سے کوئی سہولیات میسر نہیں کی گئی۔ غذا ، خوردونوش، صحت اور تعلیم سمیت بنیادی سہولیات فراہم نہیں کئی گئیں۔ ماضی میں بڑی تعداد میں یہاں کے مسلمانوں نے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہجرت کر لی ۔ بنگلہ دیش حکومت نے برما سے آنے والے مہاجرین کے لئے سخت پالیسی مرتب کی۔ ڈھاکہ سرکار کو خطرہ ہے کہ یہ پناہ گرین بنگلہ دیش میں آ کر جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں گے جس سے ان کی طاقت کو تقویت ملے گی ۔
28 مئی 2012 کو برمی بدھ مذہب خواتین کے قبولیت اسلام کے بعد مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی دیر تھی کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہو گیا۔ بدھ پرستوں نے انتقام کے لئے اس مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کے بعدقتل کرکے الزام مسلمان فیملی پر لگا دیا۔ بدھ پرستوں کو یہ ڈر اور خطرہ لاحق ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کامذہب ہے جو تمام انسانیت کو برابری کا حق دیتا ہے اگر اس طرح مسلمان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا توبدھ پرست کا مذہب زوال پذیر اور مسلمان اکثریت پا جائیں۔ اس منفی اور انسانیت کش نظریہ کو بدھ پرست لیڈروں نے بنیاد بنا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے یہ مظلومیت کا واقعہ ترتیب دیا تاکہ تمام اقوام عالم کی ہمدردیاں بدھ پرستوں کے حاصل ہو سکی
3 جون 2012 کو بت پرستوں نے تبلیغی جماعت کی ایک بس پر دھاوا بول دیا جس میں 10 سے زیادہ مسلمان شہید کر نے کے بعد اس کے سر منڈ کر ان کے چہرے مسخ کئے اور ان کو اپنا ساتھی قرار دے کر یہ الزام مسلمانوں پر لگاکہ ہمارے رہنماوں کومسلمانوں نے قتل کیا ہے۔ اس بھونڈے الزام کو پورے ملک میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیاجس کے بعدمسلمانوں کے خلاف ، ظلم ، بربریت اور فسادات کا ناروکنے والاسلسلہ شروع کروایا گیاجس میں برما کے اندر کوئی مسلمان محفوظ نہیں رہاجن کو بیمہانہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ریاست کے تمام دفاعی ادارے پولیس اورفوج نے بت پرستوں کا کھل کر ساتھ دیا یہ قتل اور جلادوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آئی۔ مسلم کی ایذا رسانی اور قتل و غارت گری کو مذہبی فریضہ سمجھ کرانجام دیا۔
10 جون 2012 کو فوج نے اکثریتی مسلم علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیاتاکہ عالمی برادری تک ان مظالم کی رسائی نہیں ہونے پائے۔
برما میں حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی عائد کی گئی۔ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت حکومتی سر پرستی میں "مال ملائشیا نامی تنظیم" نے 900 سے زیادہ دیہادتوں کو صف ہستی سے مٹادیا مسلمانوں کا سفاکانہ قتل کرنے کے ساتھ ان کی عزت کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ عورتوں کی عصمت اور بے آبروی گری کے ساتھ ان کے مکانات اور کھیتوں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ 60سے زیادہ مساجد کو شہید کیا گیا۔ برمی مسلمانوں کی اس قیامت سوز گھڑی میں 1 لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو جبر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان لا پتا ہیں ۔ انسانیت سوزمظالم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ شدید پسند مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خنزیز کا گوشت کھائیں، شراب پیئں یا مرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔
قتل و خون کی جاری ہولی میں عالمی برادری اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا نے میں اندھی، گونگی اور بہری نظر آتی ہیں ۔ان تنظیموں کی اس ظلم و ستم پر مداخلت اس وقت ہوتی ہے جن سامراجی حکومیتیں اپنے فوائد اور مفادات کے لئے ان کو اجازت دیں۔ یہ عالمی انصاف کا دوہرا معیارسب عیاں کر دیتا ہے کہ ان کی زبان پر تالے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔انسانی حقوق کی ترجمان تنظیمیں عالم کفر کے الگ اور مسلم نیشنل کے الگ معیار اور سوچ کے مالک ہو کر فیصلے کرتے ہیں۔ بے حد افسوسناک صورتحال یہ ہے مسلم امت اور ممالک بھی اس سارے المیہ پر خاموش تماشی کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھائی دیتی ہے۔برما کی مسلم برادری عالمی برادری سے انصاف اور مدد کی اپیل کررہی ہے ۔ اقوام متحدہ اور او ۔آئی۔سی کی طرح ان کی نظریں پاکستان پر بھی لگی ہوئی ہیں کہ حکومت پاکستان سخت موقف اپناتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات کی بنیاد پرعالمی برادری کی توجہ برما کے مسلمانوں کی طرف دلائےتاکہ ظلم و جبرکے ارتکاب کو بند کرکے جنگی جرائم کے مرتکب گروہوں اور عناصر کو عالمی عدالت میں پیش کئے جائیں۔
تحریر: نجم الثاقب (کالم نگار، شاعر، رائیٹر
No comments:
Post a Comment