Friday, 30 December 2016
ریاست کے حقوق و فرائض
دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اندر عوام ہی ریاست کا اصل منبع ہوتے ہیں ایک فلاحی ریاست کے اندرشہریوں سے ٹیکس کی مدد میں اکٹھی ہوئی رقم کا بڑا حصہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے اوپر خرچ ہوتا ہے ہمارے یہاں ایساہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری روزگار کے نت نئے موقعے پیدا کرناہے، کارخانوں ، فیکٹریاں اور صنعتوں کا قیام جس سے افراد زر میں کمی واقع ہوگی ، پڑھ لکھے افراد کے ساتھ ناخواندہ بھی بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے معاشرے میں اپنا رول ادا کر سکیں۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی کی سطح 57 فیصد جو بہت ہی کم ہے اس لئے ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ناخواندگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی عدم توجہ، یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ، دیہی علاقاجات میں خواتین کا تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی ہونا، گاؤں و دیہاتوں میں وسائل و سہولیات کی کمی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، تعلیمی بجٹ فنڈ میں خرد برد جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کے 45 فیصد افراد غربت کا شکار ہونے کے باعث آمدنی بہت ہی قلیل ہے اس لئے وہ تعلیم سے زیادہ مادی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے بارے میں عمومی یہ رویہ بھی ناخواندگی میں اضافہ کاسبب ہے جب لوگ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کو بے روزگار دیکھتے ہیں تو تعلیم کے حصول کے لئے ان کارجحان منفی ہو جاتا ہے وہ تعلیم پرپیسہ خرچ کرناضائع سمجھتے ہوئے اپنےبچوں کو کام کاج اور ہنرپر مجبور کرتے ہیں تاکہ روزمرہ کے خرچے کے سا تھ ساتھ ہنر سیکھ کر اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو جائے۔ پاکستان کو بہت سے تعلیمی مسائل کا سامنا ہے جن کا حل چند اقدامات کے ذریعے ممکن ہے جن میں تعلیمی اداروں میں اضافہ کے ساتھ مفت تعلیم ، آمدورفت کی سہولیات، تعلیم نسواں کا حکومتی سرپرستی میں اہتمام، بچوں کے وظیفے، میرٹ پر استاتذہ اکرام کا تقرر، والدین میں تعلیمی شعور کی بیداری، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ جیسے اقدامات پر عمل درآمد کرکے تعلیمی پسماندگی کے اوپر قابو پایا جا سکتا ہے۔
Friday, 23 December 2016
برما کے مظلوم مسلمان عالم اسلام کی طرف دیکھ رہے ہی
ماضی کابرما اور آج کامیانمار براعظم ایشیاء کا غریب اور پسماندہ ترین ملک ہے۔ جغرافیائی طوراس کی سرحدیں چین، بنگلا دیش، روس، تھائی لینڈ اور عرب ممالک سے ملتی ہیں۔ 6کڑور سے زیادہ آبادی والے اس ملک کا رقبہ 6 لاکھ 77ہزار مربع کلومیڑہے۔ ریاست بدحالی اور افلاس کے باوجود اپنا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ برما میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں لیکن حالیہ مردم شماری کے مطابق 50 فیصد بدھ پرست اور صرف 5 فیصد مسلمان یہاں کے شہری ہیں جب کہ اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کی مطابق 1 کروڑسے زیادہ مسلمان میانمار میں آباد ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ مسلمان جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کے حقوق و فرائض سے معذور رکھا گیا ۔ برما کی حکومت کی طرف سے بر ملا اعلان کیا گیا کہ مسلمان جو یہاں اآباد ہیں وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ برما صدر تھین سین کے نظریات کے مطابق مسلمانوں کو کوئی حقوق ٹ نہیں کہ وہ یہاں کے باشندے بن کر رہ سکیں۔ ان کے تحفظ کا ایک راستہ ہے کہ وہ شہروں کو چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں چلے جائیں یا برما کو چھوڑ کر چلیں جائیں۔
روہینگیا شہر مسلم اآبادی کا اکژیتی علاقے کے شہریوں کی تحفظ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے 45 ہزار بچوں کا اندراج نہیں کیا گیا مسلم پر پابندی لگائی کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے ۔ 1982 میں قیام شدہ قانون کے مطابق روہیگنا کے پیداہونے والے تمام بچے برمی شہری نہیں ہیں انہیں حکومت کی جانب سے کوئی سہولیات میسر نہیں کی گئی۔ غذا ، خوردونوش، صحت اور تعلیم سمیت بنیادی سہولیات فراہم نہیں کئی گئیں۔ ماضی میں بڑی تعداد میں یہاں کے مسلمانوں نے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہجرت کر لی ۔ بنگلہ دیش حکومت نے برما سے آنے والے مہاجرین کے لئے سخت پالیسی مرتب کی۔ ڈھاکہ سرکار کو خطرہ ہے کہ یہ پناہ گرین بنگلہ دیش میں آ کر جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں گے جس سے ان کی طاقت کو تقویت ملے گی ۔
28 مئی 2012 کو برمی بدھ مذہب خواتین کے قبولیت اسلام کے بعد مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی دیر تھی کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہو گیا۔ بدھ پرستوں نے انتقام کے لئے اس مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کے بعدقتل کرکے الزام مسلمان فیملی پر لگا دیا۔ بدھ پرستوں کو یہ ڈر اور خطرہ لاحق ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کامذہب ہے جو تمام انسانیت کو برابری کا حق دیتا ہے اگر اس طرح مسلمان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا توبدھ پرست کا مذہب زوال پذیر اور مسلمان اکثریت پا جائیں۔ اس منفی اور انسانیت کش نظریہ کو بدھ پرست لیڈروں نے بنیاد بنا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے یہ مظلومیت کا واقعہ ترتیب دیا تاکہ تمام اقوام عالم کی ہمدردیاں بدھ پرستوں کے حاصل ہو سکی
3 جون 2012 کو بت پرستوں نے تبلیغی جماعت کی ایک بس پر دھاوا بول دیا جس میں 10 سے زیادہ مسلمان شہید کر نے کے بعد اس کے سر منڈ کر ان کے چہرے مسخ کئے اور ان کو اپنا ساتھی قرار دے کر یہ الزام مسلمانوں پر لگاکہ ہمارے رہنماوں کومسلمانوں نے قتل کیا ہے۔ اس بھونڈے الزام کو پورے ملک میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیاجس کے بعدمسلمانوں کے خلاف ، ظلم ، بربریت اور فسادات کا ناروکنے والاسلسلہ شروع کروایا گیاجس میں برما کے اندر کوئی مسلمان محفوظ نہیں رہاجن کو بیمہانہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ریاست کے تمام دفاعی ادارے پولیس اورفوج نے بت پرستوں کا کھل کر ساتھ دیا یہ قتل اور جلادوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آئی۔ مسلم کی ایذا رسانی اور قتل و غارت گری کو مذہبی فریضہ سمجھ کرانجام دیا۔
10 جون 2012 کو فوج نے اکثریتی مسلم علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیاتاکہ عالمی برادری تک ان مظالم کی رسائی نہیں ہونے پائے۔
برما میں حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی عائد کی گئی۔ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت حکومتی سر پرستی میں "مال ملائشیا نامی تنظیم" نے 900 سے زیادہ دیہادتوں کو صف ہستی سے مٹادیا مسلمانوں کا سفاکانہ قتل کرنے کے ساتھ ان کی عزت کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ عورتوں کی عصمت اور بے آبروی گری کے ساتھ ان کے مکانات اور کھیتوں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ 60سے زیادہ مساجد کو شہید کیا گیا۔ برمی مسلمانوں کی اس قیامت سوز گھڑی میں 1 لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو جبر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان لا پتا ہیں ۔ انسانیت سوزمظالم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ شدید پسند مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خنزیز کا گوشت کھائیں، شراب پیئں یا مرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔
قتل و خون کی جاری ہولی میں عالمی برادری اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا نے میں اندھی، گونگی اور بہری نظر آتی ہیں ۔ان تنظیموں کی اس ظلم و ستم پر مداخلت اس وقت ہوتی ہے جن سامراجی حکومیتیں اپنے فوائد اور مفادات کے لئے ان کو اجازت دیں۔ یہ عالمی انصاف کا دوہرا معیارسب عیاں کر دیتا ہے کہ ان کی زبان پر تالے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔انسانی حقوق کی ترجمان تنظیمیں عالم کفر کے الگ اور مسلم نیشنل کے الگ معیار اور سوچ کے مالک ہو کر فیصلے کرتے ہیں۔ بے حد افسوسناک صورتحال یہ ہے مسلم امت اور ممالک بھی اس سارے المیہ پر خاموش تماشی کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھائی دیتی ہے۔برما کی مسلم برادری عالمی برادری سے انصاف اور مدد کی اپیل کررہی ہے ۔ اقوام متحدہ اور او ۔آئی۔سی کی طرح ان کی نظریں پاکستان پر بھی لگی ہوئی ہیں کہ حکومت پاکستان سخت موقف اپناتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات کی بنیاد پرعالمی برادری کی توجہ برما کے مسلمانوں کی طرف دلائےتاکہ ظلم و جبرکے ارتکاب کو بند کرکے جنگی جرائم کے مرتکب گروہوں اور عناصر کو عالمی عدالت میں پیش کئے جائیں۔
تحریر: نجم الثاقب (کالم نگار، شاعر، رائیٹر
Tuesday, 20 December 2016
پاکستان کو اِن موسموں سے بچانا ہو گا
سورج ہماری زمین کے لئے توانائی و حرارت کا اہم ترین جز ہونے کے ساتھ زمین میں جنم لینے والی موسمی و ماحولیاتی میں اہم رول رکھتا ہے ،اس سے حاصل آنے والی حرارت ، روشنی اور توانائی کی لہریں سے آب و ہوا کا درجہ حرارت بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ فضاء میں کئی گیسیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کلور و فلور کاربنز، نائٹرس آکسائیڈ ، میتھیں و دیگر موجود ہیں، صنعتی اور زرعی سر گرمیوں کے نتیجہ میں فضاء میں شامل ہو تی رہتی ہیں۔ صنعتی انقلاب کے شروع ہونے سے ان گیسیوں کا حجم فضاء میں بڑھتا جا رہا ہے جس سے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ قدرتی نظام کے تحت سورج کی شعاعیں بادلوں اور برف پوش پہاڑوں سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ خلاء کی جانب منعکس ہوتی ہیں جو فضاء میں پائی جانے والی گیسوں میں جذب ہو جاتی ہیں۔ سورج ک
ماہرین کے مطابق گزشتہ تقریباً ڈھائی سو سالوں میں موسمی پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ موسم کی شدت بڑھتی جار ہی ہے۔ زمینی درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کے ساتھ بارشوں کا سلسلہ کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے درجہ حرارت کا بڑھنا صنعتی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے
ما ہرین کے مطابق میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اشیاء ضروریات کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کاشتکاری کے لئے زمین کا استعمال، حرارت و توانائی کے لئے گیس، کوئلہ اور آئل، زرعی شعبہ جات میں کیمیائی مادوں کا استعمال کے ساتھ دیگر کئی عوامل ہیں جو فضاء کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ماحولاتی آلودگی نے پورے خطے میں موسمی و ماحولیاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے اس کی وجوہات میں تابناک ایٹمی تجربات ، ایٹمی بجلی گھروں کا قیام، آتش گیر مواد کا استعمال، فیکٹریوں، بھٹوں، صنعتوں ( فضائی مادے، کیمیکل و خطرناک گیسیں، ربڑ، پلاسٹک اور دیگر صنعتی خام مال کا دھواں)کا فضائی اخراج ، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو آگ لگانے سے پیدا ہونے والے دھواں، گاڑیوں کے سلنسرز کا دھواں،یہ تمام عناصر ہیں جو ہمارے ملک کی فضا ء میں شامل ہو کر تعفن اور
خطرناک بیماریوں کاباعث بن رہے ہیں
آج سائنس کی جاری ترقی نے ہواؤں، فضاؤں کے ساتھ اب خلاؤں کے اْ جلے پن کی تازگی میں آلودگی کو شامل کر دیا ہے۔ درختوں اور سبزہ زار سے حاصل ہونے والے تروتازگی کو انسان اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہا ہے۔ قدرت نے جو سرسبز و شاداب چادر ہماری ارض کے ادر گرد چڑھا ئی ہے وہ ہم خود درختوں، نباتات ، کھیت و کھلیان کو کاٹنے کی شکل میں مٹا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجود آباد ی میں تیزی سے اضافہ ہے جس کی وجوہات میں پہاڑ ی سلسلوں اور میدا نی علاقاجات کو کاٹ کالونی، مکانات اور پلاٹوں کی تعمیر و آرائش پر کام تیزی سے جاری ہے۔ اس لئے پاکستان میں درختوں اور جنگلات کی تعداد میں روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔
فضائی آلودگی کے انتہائی مضر صحت اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے تمام روح زمین میں موجود ہر جاندار کی حیایاتی بقاء کوشدید لاحق ہے۔ فضا ء میں اوزون کی مقدار میں خطرناک حد اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی طبی مسائل میں آئے روز پیچیدگیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ آنکھوں میں انفیکشن ، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، نزلہ و زکام، ناک و گلے کی دیگر امراض، پھیپھڑوں کے سرطان ، امراض قلب، جلدی امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔
پاکستان، بھارت اور چین میں دیگر فضائی آلودگی کے عناصر کی طرح فوگ اور سموگ نے موسم کی تبدیلی کے ساتھ نظام زندگی کو بر ی طرح متاثر کیا ہے۔ آئے روز حادثات میں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ پورے خطے کے اندر صورت حال بہت تشویش ناک ہے ،ایشیاء کے اندرجہاں بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کے ثمرات حاصل ہو رہے ہیں وہاں انسانیت کے لئے یہ مضرات بڑھ رہے ہیں۔ کئی ترقیاتی ممالک نے فضائی آلودگی کو مانیٹر کرنے کے لئے آلات اور پالیسی کا نظام واضع کر رکھا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام نافذ عمل نہیں ہے۔
پاکستان میں صنعتوں کے ساتھ زراعت کے شعبہ میں کیمیائی کھادوں اور ممنوعہ ادویات کا آزادنہ استعمال کیا جار ہا ہے جس سے انسانی صحت کے اعضاء بے حد متاثر ہو رہی ہے، جسمانی قوت مدافعت میں کمی کے باعث بیماریوں سے لڑنے کی طاقت ختم ہو جا رہی ہے۔ فصلوں کی کٹائی کے مرحلے کے بعد کھیتوں کی دوبارہ تیار ی کے لئے ابھی بھی آ گ لگا کر صفائی کا نظام قائم ہے جس سے دھواں اور راکھ میلوں تک فضا ء میں آلودگی پھیلاتی ہے۔ ملک پہلے غیر یقینی موسمی و ماحولیاتی سرگرمیوں کا شکار ہے اب ضرورت اس امر ہے کہ حکومت اور عوام مل کر اس کے سدباب کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں۔یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے لئے اپنا فرض با احسن انجام دیں۔
حکومت کو چاہیے کہ آتش گیرمادوں کے استعمال ، فضائی کیمیائی مادوں و فضلات کی روک تھام کے لئے فیکٹریوں، کارخانوں، بھٹوں ، صنعتوں میں ویسٹ مینجمنٹ سسٹم و آلات کی تکمیل پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔ ٹریفک پولیس تمام گاڑیوں کی فٹنس سرٹیفکیٹ پر ایکشن لے۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو آگ لگانے کی بجائے غیر آباد علاقوں میں دفنانے کا بندوبست کیا جائے۔ جنگلات کے کاٹنے کی روک تھام کے ساتھ ساتھ پھل دار درختوں اور پودوں کی نرسری کی مہم چلائی جائے۔ فصلوں پر کیمیائی و زہریلی ادویات کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ برف اور گلیشرز کے بہہ جانے والے پانی کو ڈیم میں محفوظ کیا جائے تاکہ آبی کمی کو پورا کیا جائے۔ سمندری پانی کو زہریلے کیمیائی و تیزابی مادوں کے فضلات سے بچائیں
تحریر: نجم الثاقب (کالم نگار، شاعر، رائیٹر
Monday, 19 December 2016
Andrey Karlov (L), the Russian ambassador to Ankara, lying on the floor after being shot by a gunman (R) during an attack during a public event in Ankara.
ترکی میں روس سفیراندرے کارلوف کوایک حملہ آورنے فائرنگ کرکے قتل کیاتواس شخص نے روسی سفیرپرفائرنگ کرنے سے قبل
اللہ اکبراورالیپوکابدلہ لینے کانعرہ لگایااوراس کے فوری بعد تقریب میں خطاب کرنے والے روسی سفیرآندرے کارلوف پرفائرنگ کردی جس سے روسی سفیرشدیدزخمی ہوگئے جبکہ حملہ آورکوپولیس نے موقع پرہی فائرنگ کرکے ہلاک کردیا
Andrey Karlov was shot dead at an art gallery in Ankara by a man believed to be Mevlűt Mert Altintaş, 22, an off-duty Turkish police officer. Altintaş reportedly shouted: “We die in Aleppo, you die here”, before shooting the ambassador repeatedly in the back. The Russian Foreign Ministry confirmed shortly after that Mr Karlov had died from his wounds and called the killing “a terrorist act”. Foreign ministry spokeswoman Maria Zakharova said: "Today in Ankara as a result of an attack, the ambassador of the Russian Federation to Turkey, Andrey Gennadyevich Karlov, received a wound from which he died.
Tuesday, 13 December 2016
ریاست کی اصل ذمہ داریاں اورحقوق
ریاست کی اصل ذمہ داریاں اورحقوق
پاکستان آئین کے آرٹیکل-194 38 کے مطابق ریاست عوام کے بنیادی
ضروریات زندگی کی فراہمی، فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی کی اصل ذمہ دار ہے۔ریاست
پاکستان کو معرض وجود میں آئے سات دہائیاں
مکمل ہونے کو ہیں مگر ابھی تک شہریوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک کی ترقی و خوشحالی میں عوام ہی حکومت کے اصل موجدہوتے ہیں
حکومت کی اولین ذمہ دار ی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائض کو ادا کرے۔
فلاحی ریاست کے اندر تمام شہری حقوق و فرائض کے اعتبار سے برابری کا درجہ رکھتے
ہیں ، امیر و غریب اور حاکم و محکوم میں کوئی تمیز نہیں ہے ۔ قانون اور آئین کی نظر میں ہر شخص پر یکسا ں قانون لا گو ہوتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدل و انصاف کا نظام شفاف اور موثر و جامع طور پر نافذ عمل ہو۔ دین اسلام عدل و انصاف اور مساوات کا درس دیتا ہے اس لئے تمام شہریوں کو بلا تفریق سماجی، معاشی اور اقتصادی حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہو نے چاہئے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست ملک سے جرائم کا خاتمہ کرکے عدل وانصاف کے ساتھ ہر فرد کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ اٹھا سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت و پارٹی کے لیڈرز اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے عوام کی مجبوریوں کو سولوگن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، شہریوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کے سنہری خواب دیکھتے ہیں ۔ علاقے کا نمائند گان الیکشن مہم میں عوام کے بنیادی حقوق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کے بلند و بالا دعووں کے قصیدے پڑھتے ہیں ،لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان نام نہاد سیاسی لیڈرز کی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے وہ جانتے ہیں کہ پانچ سالہ حکومت میں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے وہ اپنے تمام وعوے وعید کو پش پشت ڈال کر ذاتی مفادات کے لئے کاربندفرمارہتے ہیں۔ منتخب نمائندے سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے کے بعداتنی ہمت نہیں رکھتے کہ وہ عو ام کے مسائل اور فلاح و بہبود کے لئے ا یوان بالا اور اقتدار اعلٰی میں آواز اٹھا سکیں ۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں کے اندر موروثیت کا اصول کارفرما ہے سیاسی جانشین بہت مضبوط و طاقت ور ہونے کی وجہ سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔ کسی سیاسی و پارٹی ورکر، رکن اور منتخب نمائندہ اسمبلی کے پاس جرات نہیں ہے کہ وہ پارٹی لیڈرز کی اجازت کے بغیر اپنے رائے کا اظہار تک سکتے، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں شہشناہ معظم ناراض نہ ہوں جائیں۔
فلاحی ریاست کے اندر تمام شہری حقوق و فرائض کے اعتبار سے برابری کا درجہ رکھتے
ہیں ، امیر و غریب اور حاکم و محکوم میں کوئی تمیز نہیں ہے ۔ قانون اور آئین کی نظر میں ہر شخص پر یکسا ں قانون لا گو ہوتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدل و انصاف کا نظام شفاف اور موثر و جامع طور پر نافذ عمل ہو۔ دین اسلام عدل و انصاف اور مساوات کا درس دیتا ہے اس لئے تمام شہریوں کو بلا تفریق سماجی، معاشی اور اقتصادی حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہو نے چاہئے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست ملک سے جرائم کا خاتمہ کرکے عدل وانصاف کے ساتھ ہر فرد کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ اٹھا سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں ہر سیاسی جماعت و پارٹی کے لیڈرز اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے عوام کی مجبوریوں کو سولوگن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، شہریوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کے سنہری خواب دیکھتے ہیں ۔ علاقے کا نمائند گان الیکشن مہم میں عوام کے بنیادی حقوق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کے بلند و بالا دعووں کے قصیدے پڑھتے ہیں ،لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان نام نہاد سیاسی لیڈرز کی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے وہ جانتے ہیں کہ پانچ سالہ حکومت میں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے وہ اپنے تمام وعوے وعید کو پش پشت ڈال کر ذاتی مفادات کے لئے کاربندفرمارہتے ہیں۔ منتخب نمائندے سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے کے بعداتنی ہمت نہیں رکھتے کہ وہ عو ام کے مسائل اور فلاح و بہبود کے لئے ا یوان بالا اور اقتدار اعلٰی میں آواز اٹھا سکیں ۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں کے اندر موروثیت کا اصول کارفرما ہے سیاسی جانشین بہت مضبوط و طاقت ور ہونے کی وجہ سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔ کسی سیاسی و پارٹی ورکر، رکن اور منتخب نمائندہ اسمبلی کے پاس جرات نہیں ہے کہ وہ پارٹی لیڈرز کی اجازت کے بغیر اپنے رائے کا اظہار تک سکتے، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں شہشناہ معظم ناراض نہ ہوں جائیں۔
سیاسی پارٹیاں حکومت میں آنے کے لئے اپنی باری کے
انتظار کے ساتھ مختلف سیاسی حربوں کا استعمال کرتیں رہتی ہیں تاکہ وقت گزرنے کے
ساتھ الیکشن کے لئے سیاسی پلے گراؤنڈ کی تیاری ممکن بنائی جا سکے۔ عوام کی
ہمدردیاں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں نشہ اقتدار کے لئے یہ سلسلہ
اس طرح عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ سیاست کے نام پر ایک دوسرے کے اوپر الزام
لگائے جاتے ہیں وہ جانتے ہیں یہی اقتدار میں آنے کا واحد راستہ ہے جن کو کیش کراکر
وہ باسانی حکومت کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔
ریاست کے تما م شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پابندی، رکاوٹ، مداخلت کے بغیر باعزت طریقے سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے معاشی سرگرمیوں سر انجام دیں ،حکومت کے تمام ادارے ، بیورکریسی اور دیگرمشینری آئین پاکستان کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں تمام پبلیک ہولڈر کی ذمہ داری ہے کہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کو بھرپور مدد کے ساتھ رہنمائی فراہم کریں لیکن عملی طور پر ایسا بہت کم نظر آتا ہے۔ عوام کے معاشی حقوق اصل میں معاشی آزادی سے منسلک ہیں ،عوام کے راستے میں رکاوٹیں ، پابندی اور مسائل کون پیدا کرتا ہے وہی جن کے پاس قوت، طاقت اور اختیار ہو، یہ پاور حکومت اور اس کے ماتحت ادارو ں وگروہوں کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وہ عناصر جو حکومتی سر پرستی کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات کے لئے معاشرہ کے توازن کو بگاڑتے ہوتے شہریوں کے حقوق سلب کرنے میں مشغول ہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور سفارش کا استعمال عام سی روایات ہیں۔
دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اندر عوام ہی ریاست کا اصل منبع ہوتے ہیں ایک فلاحی ریاست کے اندرشہریوں سے ٹیکس کی مدد میں اکٹھی ہوئی رقم کا بڑا حصہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے اوپر خرچ ہوتا ہے ہمارے یہاں ایساہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری روزگار کے نت نئے موقعے پیدا کرناہے، کارخانوں ، فیکٹریاں اور صنعتوں کا قیام جس سے افراد زر میں کمی واقع ہوگی ، پڑھ لکھے افراد کے ساتھ ناخواندہ بھی بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے معاشرے میں اپنا رول ادا کر سکیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی کی سطح 57 فیصد جو بہت ہی کم ہے اس لئے ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ناخواندگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی عدم توجہ، یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ، دیہی علاقاجات میں خواتین کا تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی ہونا، گاؤں و دیہاتوں میں وسائل و سہولیات کی کمی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، تعلیمی بجٹ فنڈ میں خرد برد جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کے 45 فیصد افراد غربت کا شکار ہونے کے باعث آمدنی بہت ہی قلیل ہے اس لئے وہ تعلیم سے زیادہ مادی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے بارے میں عمومی یہ رویہ بھی ناخواندگی میں اضافہ کاسبب ہے جب لوگ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کو بے روزگار دیکھتے ہیں تو تعلیم کے حصول کے لئے ان کارجحان منفی ہو جاتا ہے وہ تعلیم پرپیسہ خرچ کرناضائع سمجھتے ہوئے اپنے
ریاست کے تما م شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پابندی، رکاوٹ، مداخلت کے بغیر باعزت طریقے سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے معاشی سرگرمیوں سر انجام دیں ،حکومت کے تمام ادارے ، بیورکریسی اور دیگرمشینری آئین پاکستان کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں تمام پبلیک ہولڈر کی ذمہ داری ہے کہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کو بھرپور مدد کے ساتھ رہنمائی فراہم کریں لیکن عملی طور پر ایسا بہت کم نظر آتا ہے۔ عوام کے معاشی حقوق اصل میں معاشی آزادی سے منسلک ہیں ،عوام کے راستے میں رکاوٹیں ، پابندی اور مسائل کون پیدا کرتا ہے وہی جن کے پاس قوت، طاقت اور اختیار ہو، یہ پاور حکومت اور اس کے ماتحت ادارو ں وگروہوں کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وہ عناصر جو حکومتی سر پرستی کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات کے لئے معاشرہ کے توازن کو بگاڑتے ہوتے شہریوں کے حقوق سلب کرنے میں مشغول ہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور سفارش کا استعمال عام سی روایات ہیں۔
دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اندر عوام ہی ریاست کا اصل منبع ہوتے ہیں ایک فلاحی ریاست کے اندرشہریوں سے ٹیکس کی مدد میں اکٹھی ہوئی رقم کا بڑا حصہ شہریوں کی فلاح و بہبود کے اوپر خرچ ہوتا ہے ہمارے یہاں ایساہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری روزگار کے نت نئے موقعے پیدا کرناہے، کارخانوں ، فیکٹریاں اور صنعتوں کا قیام جس سے افراد زر میں کمی واقع ہوگی ، پڑھ لکھے افراد کے ساتھ ناخواندہ بھی بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے معاشرے میں اپنا رول ادا کر سکیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی کی سطح 57 فیصد جو بہت ہی کم ہے اس لئے ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ناخواندگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومت کی عدم توجہ، یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ، دیہی علاقاجات میں خواتین کا تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی ہونا، گاؤں و دیہاتوں میں وسائل و سہولیات کی کمی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، تعلیمی بجٹ فنڈ میں خرد برد جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کے 45 فیصد افراد غربت کا شکار ہونے کے باعث آمدنی بہت ہی قلیل ہے اس لئے وہ تعلیم سے زیادہ مادی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے بارے میں عمومی یہ رویہ بھی ناخواندگی میں اضافہ کاسبب ہے جب لوگ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کو بے روزگار دیکھتے ہیں تو تعلیم کے حصول کے لئے ان کارجحان منفی ہو جاتا ہے وہ تعلیم پرپیسہ خرچ کرناضائع سمجھتے ہوئے اپنے
بچوں کو کام کاج اور ہنرپر مجبور کرتے ہیں تاکہ
روزمرہ کے خرچے کے سا تھ ساتھ ہنر سیکھ کر اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو جائے۔
پاکستان کو بہت سے تعلیمی مسائل کا سامنا ہے جن کا حل چند اقدامات کے ذریعے ممکن
ہے جن میں تعلیمی اداروں میں اضافہ کے ساتھ مفت تعلیم ، آمدورفت کی سہولیات، تعلیم
نسواں کا حکومتی سرپرستی میں اہتمام، بچوں کے وظیفے، میرٹ پر استاتذہ اکرام کا
تقرر، والدین میں تعلیمی شعور کی بیداری، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، سیاسی اثر و رسوخ
کا خاتمہ جیسے اقدامات پر عمل درآمد کرکے تعلیمی پسماندگی کے اوپر قابو پایا جا
سکتا ہے۔
پاکستان میں حکومت کی عدم توجہ کی بدولت صحت عامہ کی حالت انتہائی مخدوش ہے ڈاکٹرز اور استا تذہ اکرام ہر معاشرے میں مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں جو آنے والی نسلوں کی تعمیری و ترقی میں قلیدی رُول رکھتے ہیں۔ ملک میں ہر سال ہزاروں ڈاکٹرز اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں جن کی اکثریت فیملی ڈاکٹرز کی ہوتی ہے جو پہلے سے موجود کلینک پر اپنی پریکٹس شروع کر دیتے ہیں ،بعض ڈاکٹرز حضرات کی خواہش بیرون ملک میں اپنا پروفیشن صلاحیتوں کا اظہاراولین ترجیح ہوتی ہے ، نیز ایسے ڈاکٹرز جو سرکاری ہسپتالوں میں سروسز کے حامل ہوتے ہیں وہ حکومت کی ملی بھگت سے اپنی پوسٹنگ بڑے شہروں میں کروا لیتے ہیں۔ وسائل و سہولیات کی کمی کے باعث دیہی علاقاجات میں صحت کا فقدان پایا جاتا ہے، مجبورا گاؤں ، دیہاتوں اور مضافاتی علاقے کے باسیوں کو علاج و معالج کے لئے شہروں کا رخِ کرنا پڑتا ہے ۔ ملک میں ایک ہزار ہسپتالوں میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائدبیڈز کی گنجائش موجود ہے ، پانچ ہزار سے زیادہ سرکاری ڈسپنسریاں، رول ہیلتھ سینٹر کی تعداد تقریبا تین ہزار سے زائدجب کہ ٹی بی سینٹر کی تعداد چار سو سے زائد ہیں، لیکن اکثر سرکاری سینٹر بند ملتے ہیں یا وہاں نرسنگ، پیرامیڈیکل سٹاف کا نمائندہ ہی ڈاکٹرز صاحبان کی سیٹ پر براجماں ہوتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کا غائب ہونا، لیبارٹری ٹیسٹ کا باہر سے کروانا، سینئر ڈاکڑز کا مریضوں کو چیک اپ نہ کرنا، ادویات کے لئے مخصوص کمپنی کے نسخہ پر اصرار کرنا، وقت کی پابندی جیسے مسائل توجہ طلب ہیں۔ صحت کے شعبے میں گڈ گروننس کے ذریعے مطلوبہ کامیابی حاصل کر کے صحت عامہ کے مسائل کو باسانی حل کیاجا سکتا ہے۔
پاکستان میں حکومت کی عدم توجہ کی بدولت صحت عامہ کی حالت انتہائی مخدوش ہے ڈاکٹرز اور استا تذہ اکرام ہر معاشرے میں مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں جو آنے والی نسلوں کی تعمیری و ترقی میں قلیدی رُول رکھتے ہیں۔ ملک میں ہر سال ہزاروں ڈاکٹرز اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں جن کی اکثریت فیملی ڈاکٹرز کی ہوتی ہے جو پہلے سے موجود کلینک پر اپنی پریکٹس شروع کر دیتے ہیں ،بعض ڈاکٹرز حضرات کی خواہش بیرون ملک میں اپنا پروفیشن صلاحیتوں کا اظہاراولین ترجیح ہوتی ہے ، نیز ایسے ڈاکٹرز جو سرکاری ہسپتالوں میں سروسز کے حامل ہوتے ہیں وہ حکومت کی ملی بھگت سے اپنی پوسٹنگ بڑے شہروں میں کروا لیتے ہیں۔ وسائل و سہولیات کی کمی کے باعث دیہی علاقاجات میں صحت کا فقدان پایا جاتا ہے، مجبورا گاؤں ، دیہاتوں اور مضافاتی علاقے کے باسیوں کو علاج و معالج کے لئے شہروں کا رخِ کرنا پڑتا ہے ۔ ملک میں ایک ہزار ہسپتالوں میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائدبیڈز کی گنجائش موجود ہے ، پانچ ہزار سے زیادہ سرکاری ڈسپنسریاں، رول ہیلتھ سینٹر کی تعداد تقریبا تین ہزار سے زائدجب کہ ٹی بی سینٹر کی تعداد چار سو سے زائد ہیں، لیکن اکثر سرکاری سینٹر بند ملتے ہیں یا وہاں نرسنگ، پیرامیڈیکل سٹاف کا نمائندہ ہی ڈاکٹرز صاحبان کی سیٹ پر براجماں ہوتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کا غائب ہونا، لیبارٹری ٹیسٹ کا باہر سے کروانا، سینئر ڈاکڑز کا مریضوں کو چیک اپ نہ کرنا، ادویات کے لئے مخصوص کمپنی کے نسخہ پر اصرار کرنا، وقت کی پابندی جیسے مسائل توجہ طلب ہیں۔ صحت کے شعبے میں گڈ گروننس کے ذریعے مطلوبہ کامیابی حاصل کر کے صحت عامہ کے مسائل کو باسانی حل کیاجا سکتا ہے۔
Saturday, 10 December 2016
Professor Karrar Hussain
Professor Karrar Hussain |
پھر جب وہ استاد کوئٹہ سے کراچی واپس روانہ ہوئے تو رخصت کرنے سارا شہر امنڈ آیا۔
یہ سراپا محبت استاد تھے پروفیسر کرار حسین ۔۔۔
کرار حسین 8 ستمبر، 1911ء کو کوٹہ( راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت میرٹھہ میں ہوئی۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)، ایم اے (انگریزی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر خاکسار تحریک سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد کسی اور جماعت کی طرف نہیں دیکھا ،میرٹھہ سے خاکسار تحریک کا ترجمان اخبار بھی جاری کیا تھا۔۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے تدریس کو اپنا شغل بنایا۔ میرٹھہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوئے۔ وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تھےلیکن جنوری 1948 میں گاندھی جی کے قتل کے بعد مسلمانوں کے بارے میں کچھہ ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کہ ہندوستان بھر کےنمایاں اور مشہور مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کرار صاحب بھی چند دن جیل رہے ۔ اس واقعہ کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
اسلامیہ کالج کراچی کے بعد خیر پور، میر پور خاص، کوئٹہ کے گورنمنٹ کالجوں کے پرنسپل رہے۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے بعد کچھہ عرصہ جامعہ ملیہ کراچی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد میں کراچی میں اسلامی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔
کرارحسین اسلام میں ترقی پسند نقطۂ نظررکھتے تھے ۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی، مطالعہ قرآن اور غالب: سب اچھا کہیں جسے، سوالات و خیالات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے7 نومبر، 1999ء کو کراچی میں وفات پائی اور سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔۔ جوہر حسین ، تاج حیدر ،
Sunday, 4 December 2016
پاکستان کا مجوزہ وزیر آعظم : چوہدری نثار احمد
مڈل ایسٹ ویڈیو کے تجزیہ نگار کی جانب سے
حکومت پاکستان کی تازہ ترین صورتحال،
وزیر اعظم نواز شریف پہ استعفے کا دبآؤ،
جماعت اسلامی کی سپرئم کورٹ میں نئی درخواست اور نئے وزیر اعظم کے کیلئے جناب چوہدری نثار احمد کے نام کی تجویز
اگر وزیراعظم نااہل ہوگئے تو نیا وزیراعظم کون ہوگا؟ ن لیگ کے اندر نئی کہانی شروع،جیسےہی پاناما لیکس کا مقدمہ آگے بڑھ رہا ہے ،مقدمے میں تضادات کی وجہ سے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی یا سبکدوشی کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے استعفیٰ اورمسلم لیگ ن سے ہی نیا وزیر اعظم لانے کا مطالبہ زور پکڑ رہاہے تفصیلات کے مطابق پانامہ لیکس کے معاملے کے بعد پاکستانی حکومت، مسلم لیگ ن اور شریف خاندان شدید تذبذب کا شکار ہوچکا ہے۔ اندرون خانہ ایک نئی آپشن گردش کررہی ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف وزارت عظمی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اور
ان کی جگہ مسلم لیگ ن سے ہی کوئی دوسرا اہم
رہنما یہ منصب سنبھال لے۔ ذرائع کے مطابق موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے اس آپشن کو بہترین قرار دیا جارہا ہے۔ اگر میاں محمد نوازشریف وزارت عظمی سے مستعفی ہوگئے تو وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد وزارت عظمی کے سب سے مضبوط اْمیدوار ہوں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں نے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو اپنے منصب سے الگ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر اپنے منصب سے مستعفی ہوکر پارٹی کے کسی سینئر رہنما کو وزیر اعظم منتخب کریں تاکہ ن لیگ کے گرتی ہوئی حکومت اور ساکھ کو بچایا جاسکے۔نئے وزیراعظم کیلئے چوہدری نثار،اسحاق ڈار اور حمزہ شہبازشریف کا نام بھی زیر گردش ہے ۔
مگر لگتا یوں ھے کہ نواز شریف کے بعد وزارت عظمی کا تاج جناب چوہدری نثار کہ سر پہ ہی سجے گا۔
م اپنے ویورز کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جماعت اسلامی نے بھی پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کیلئے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کر دی ہے۔جماعت اسلامی کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی متفرق درخواست میں استدعا کی گئی کہ انکوائری کمیشن نیب اور ایف آئی اے کو ضروری کارروائی کی ہدایات دے۔ تحقیقاتی ادارے تمام ریکارڈ کمیشن کو پیش کریں۔ انکوائری کمیشن کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں۔ ٗکمیشن کو ٹیکس گوشوارے اور جائیداد کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔ یہ بھی ٗاستدعا کی گئی کہ کمیشن تمام دستاویزات کا فرانزک آڈٹ کرائے۔ کمیشن بوقت ضرورت دوسرے ممالک سے بھی دستاویزات منگوائے۔ پانامہ میں جن افراد کا نام آیا ہے کمیشن انہیں فریق بنائے۔ کمیشن اپنا کام مقررہ مدت کے اندر مکمل کرے۔ ذیلی کمیشن بھی ججزپر مشتمل ہو، بوقت ضرورت کمیشن ذیلی کمیشن بھی تشکیل دے۔
ھم مڈل ایسٹ ویڈیو کے محترم قارئین کو یہ بھی بتلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف میں وہ تمام خامیاں بررجہ اُتم موجود ھیں جو ایک خائن حُکمران میں ھونے چاہیں مگر اس کے ساتھ ھی وہ ایک خوش قسمت انسان بھی ھیں کہ اس قسم کے تمام ناروا حالات میں پہلے بھی نکل چُکیے ھیں اور اس دفعہ بھی اُنہوں نے اپنی یاوری کے لئے قطر کے شہزادہ کو پاکستان مدعو کیا
ھے کے پانامہ پیپرز کے سلسلہ میں شاید اُن کی گواہی انہیں بچا سکے۔
ہر حال آگر اس دفعہ نواز شریف اگر بچ نہ پاۓ تواس تمام مندرجہ بالا صورتحال کے تناظر میں وزارت عظمی کےاگلے مضبوط امیدوار (پاکستان کے موجودہ وزیر داخلہ) جناب چوہدری نثار آحمد وزیر آعظم پاکستان ہی ھونگے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)