کنٹریکٹر (تلخیص
مصنف : ریمنڈ ڈیوس
شریک مصنف : سٹارم ریبیک
ترجمہ : ریحان اصغر سید
آج کل ریمنڈ ڈیوس کی کتاب دی کنٹریکٹر ہر جگہ موضوع بحث ہے۔ ہم نے جزئیات اور تفصیلات کو چھوڑ کر پوری کتاب کا ایک عمومی سا خلاصہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے مصروف اور انگلش سے نابلد افراد کے لیے یہ کاوش سودمند ثابت ہوگی.
کیا ستم ظریفی ہے کہ بعض دفعہ چند معمولی اور غیر اہم فیصلے جب یکجا ہوتے ہیں تو نیتجہ ایک خطرناک حادثے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس صبح مجھے بیدار ہوئے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا جب میرے ٹیم لیڈر کے پوچھنے پر مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ مجھے آج ایس یو وی (ایک بڑی فور بائی طاقتور انجن والی جیپ) استعمال کرنی ہے یا ایک قدرے چھوٹی سیڈان کار۔
عموما جنوبی ایشیا کی کھردری اور خستہ حال سڑکوں کے لیے ہماری پہلی پسند آرمڈ ایس یو وی ہی ہوتی ہے، لیکن اس دن میں نے اپنےاستعمال کے لیے کار کو لے جانا پسند کیا۔
میرا نام ریمنڈ ڈیوس ہے، میں ایک سکیورٹی کنٹریکٹر ہوں۔ میرا کام بیرون ملک کام کرنے والے امریکیوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دراصل ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو خود ان کے اپنے آپ سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ مجھے غلط مت سمجھیے گا، مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے شعبوں کے بڑے ماہر، ہنر مند اور ذہین انسان ہوتے ہیں، لیکن یہ اکثر حالات کا رخ اور خطرات کی نوعیت پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں، مثال کے طور پر ایک دفعہ میں افغانستان میں یو ایس ایڈ پروگرام کی ٹیم کے ساتھ مامور تھا۔ میری تمام تر ہدایات کے باوجود ایک خاتون رکن نے خود کو بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے میدان میں پھنسا لیا، اور مجھے اپنی جان پر کھیل پر اسے بچانا پڑا۔ ہمارے کام میں ہر وقت خطرات سے سامنا رہتا ہے. اگر میں یہ کہوں کہ میرے کیرئیر میں جب جب میرا موت سے آمنا سامنا ہوا، اور یہ واقعات مجھ پر اثرانداز نہیں ہوئے تو یہ جھوٹ ہوگا۔ ایک دفعہ ہم ڈک چینی کے دورہ افغانستان کے موقع پر انھیں امریکی سفارت خانے سے صدارتی محل میں لے جانے کی مہم پر تھے۔ میں ایڈونس لیڈ کار جسے جیمر کہا جاتا ہے، چلا رہا تھا۔ میرا کام ٹریفک کو ہٹاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ڈک چینی کا کانوائے بغیر رکاوٹ کے چلتا رہے۔ اسی دوران ہائی وے کے بائیں جانب سے ایک کار نمودار ہوئی اور تیزی سے ہماری جانب بڑھنے لگی۔ میں نے شاٹ گن پر مامور اپنی ٹیم کے ساتھی کو کہا کہ وہ ریڈیو پر کانوائے کی گاڑیوں کو بتائے کہ وہ سڑک کے انتہائی جانب ہو جائیں۔ اور میں نے اپنی گاڑی کا رخ بائیں جانب سے آنے والی مشکوک گاڑی کی جانب موڑ دیا۔ میری ذمہ داری امریکی نائب صدر کے گاڑیوں کے قافلے کو (جو ہمارے سر پر پہنچ چکا تھا) ہر قیمت پر محفوظ رکھنا تھا۔ اگر نمودار ہونے والی کار بارودی مواد سے بھری ہوئی تھی تو مجھے اس سے اپنی گاڑی ٹکرا کے اسے موٹر کیڈ سے ہر ممکن دور پھٹنے پر مجبور کرنا تھا، چاہے اس دوران میری اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔ خوش قسمتی سے مشکوک کار عین وقت پر دور چلی گئی۔
اُن دنوں پاکستان امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، اس لیے امریکنز، خاص طور پر وہ جو سفارت خانوں سے منسلک ہیں، ان کے لیے اس ملک میں سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ انھیں جگہ جگہ چیکنگ کے بہانے روکا جاتا، کاغذات طلب کیے جاتے اور یہ سلسلہ سڑک کے کنارے کئی گھنٹوں تک چلتا رہتا، یہاں تک کہ سفارت خانے سے کوئی سینئر آفیشل ہماری مدد کو آتا۔
میں ایک ہفتہ پہلے ہی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچا تھا۔ اس کے بعد میں لاہور آ گیا۔ پچھلے دو سالوں میں یہ پاکستان میں میرا نواں ٹرپ تھا۔ ان میں آدھے میں نے پاکستان کے ایک سرحدی شہر پشاور اور آدھے لاہور میں گزارے۔ لاہور ایک گنجان آباد، زندہ دل اور تہذیبی طور پر امیر شہر ہے۔ میں سفید سیڈان میں اپنی رہائش گاہ سے نکلا، جہاں میرے باقی ساتھی مقیم تھے۔ میری ساری توجہ اپنے اگلے ٹاسک پر تھی۔ میرا مقصد مقررہ راستوں سے گزرتے ہوئے ممکنہ خطرات کا جائزہ لینا تھا۔ پاکستان جیسے ملک میں، جو ہنوز دہشت گردی کی سب سے بڑی اور سرسبز نرسری ہے، آپ کو ہر وقت چوکنا اور محتاط رہنا پڑتا ہے۔ میں مستقل طور پر ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ میرا لاہور میں پانچواں دن تھا۔ اور یہ میرا روز کا معمول تھا کہ میں گاڑی پر شہر میں نکل آتا، گلیوں اور سڑکوں کی پہچان کرتا اور موسم سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا۔ جب بھی میں لاہور میں ڈرائیو کر رہا ہوتا تھا تو میرا واسطہ سڑکوں پر رکھی گئی رکاوٹوں اور چیک پوائنٹس سے پڑتا رہتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دی کنٹریکٹر (آخری قسط) - ریحان اصغر سید
اُن دنوں پاکستان امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، اس لیے امریکنز، خاص طور پر وہ جو سفارت خانوں سے منسلک ہیں، ان کے لیے اس ملک میں سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ انھیں جگہ جگہ چیکنگ کے بہانے روکا جاتا، کاغذات طلب کیے جاتے اور یہ سلسلہ سڑک کے کنارے کئی گھنٹوں تک چلتا رہتا، یہاں تک کہ سفارت خانے سے کوئی سینئر آفیشل ہماری مدد کو آتا۔ میں سفید سیڈان میں ٹریفک کے بہاؤ کا جائزہ لیتا ہوا جیل روڈ پر گامزن تھا۔ یہ ایک بڑی سڑک ہے جس کے دونوں اطرف تین تین لینز ہیں، درمیان میں گھاس کا قطعہ ہے۔ ہم فیروز پور روڈ کے سنگم پر تھے۔ یہ ایک مشہور اور مصروف جگہ ہے جسے مزنگ چوک کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے ٹریفک کا بہاؤ رک سا گیا تھا۔ میرے چاروں طرف گاڑیاں، رکشے موٹر سائیکل اور سائیکل سوار تھے۔ مجھے ٹریفک جام میں پھنسے ابھی دو منٹ ہوئے ہوں گے۔ میں حسب معمول اپنے اردگرد کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا۔ جہاں بھی مجھے لوگوں کے بیچ میں کچھ وقت گزارنا پڑتا تو یہ میرا معمول تھا کہ میں ہر وقت اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھتا رہتا تھا۔ اسی اثنا میں، میں نے اپنے سامنے ایک سیاہ موٹر سائیکل کو پایا جس پر دو نوجوان سوار تھے۔ ہیملٹ پہنے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان (جس کا نام بعد میں فیضان حیدر معلوم ہوا) نے اپنے ہاتھ موٹر بائیک کے ہینڈل بار پر رکھے ہوئے تھے، اس کے بالکل پیچھے محمد فہیم بیٹھا ہوا تھا جس کا اوپر والا دھڑ میری جانب اس طرح مڑا ہوا تھا کہ اس کا چہرہ مجھ سے بمشکل دس فٹ دور تھا۔ حتی کہ میں اسے اپنے پہلو سے پستول نکالتے ہوئے اس کے ہاتھ کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ پاکستان میں اسلحہ رکھنا ایک معمول کی چیز ہے لیکن جب کوئی بھیڑ میں آپ پر بندوق تان لے تو وہ شخص آپ کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ جب آپ ایسی صورتحال میں پھنس جائیں جہاں آپ کی جان کو خطرہ ہو تو بیشتر لوگوں کے اعصاب ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے وہ معمول کے کام سرانجام دینے سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں تھا۔ میری تربیت دنیا کے سب سے بہترین انسٹرکٹز نے کی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر میں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ اپنے آگے پیچھے اردگرد ہر چیز کو میں بخوبی دیکھ پا رہا تھا حتی کہ اپنی ونڈ سکرین پر جمی دھول کے دھبوں کو بھی۔ اور ان دو نوجوانوں کو بھی جو میری کار سے کچھ آگے ایک موٹر بائیک پر سوار تھے۔ گن برادر لڑکے کی گن کی نال کا رخ پہلے زمین کی طرف تھا۔ پھر نال کا رخ کار کی فرنٹ گرل بونٹ سے ہو کر بالکل میرے جسم کی جانب ہو گیا۔
بگ سٹون گیپ ورجینا (جہاں میں پلا بڑھا) کنٹکی کے پہاڑوں کے نزدیک ایک الگ تھلگ جگہ ہے۔ یہاں زندگی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ یہ علاقہ کوئلے کی سرزمین ہے۔ میرے والد بھی ایک کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے۔ جب تک ان پر کوئلے کی ایک سات سو پاونڈ وزنی چٹان نہیں گری تھی۔ جس نے ان کی کمر کو تین جگہ سے توڑ دیا۔ اس حادثے کے وقت میری عمر فقط پانچ سال تھی۔ لیکن پھر بھی اس واقعے کے مجھ پر اثرات بہت گہرے تھے، جب تک میرے والد مکمل صحت یاب ہوتے میری والدہ کو گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے تین تین نوکریاں کرنی پڑیں۔ ہم ہمیشہ پیسے کی تنگی کا شکار رہے اور ہمارا بھوک سے مستقل واسطہ رہتا تھا۔ لیکن مجھے اپنی غربت کا احساس کبھی نہیں ہوا، کیونکہ قصبے کی بیشتر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ وہ تو جب میں قصبے سے نکلا اور دنیا دیکھی تو مجھے تب اندازہ ہوا کہ ہم کس قدر غریب تھے۔
میں ہمیشہ سے ایک جسیم لڑکا تھا۔ ساتویں کلاس میں ہی مجھے آٹھویں کلاس کی فٹ بال ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ میرے والد کھیلوں کے معاملے میں ہمیشہ میری حوصلہ آفزائی کرتے اور میرے میچ حتی کہ مجھے پریکٹس کرتے دیکھنے آتے، جب تک میں چودہ سال کا تھا اور ان کا ہارٹ اٹیک سے انتقال نہیں ہوا تھا۔ ان کی زندگی میں گھر کے اخراجات چلانا کبھی اتنا مشکل نہیں لگتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد ہمیں فوڈ سٹمپس اور حکومتی امداد پر انحصار کرنا پڑا۔ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی صورتحال یا تو آپ کو توڑ دیتی ہے یا کچھ بننے اور کر گزرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کم از کم میں ٹوٹنے والا نہیں تھا۔ میں سردیوں میں برف صاف کرتا اور باقی سارا سال دس ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے اینٹوں اور بلاکس ڈھونے کی مشقت کرتا۔ لیکن میں ساری عمر اینٹوں کی مشقت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں بگ سٹون گیپ سے نکل کر دنیا دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ چیز مجھے مسلح افواج کی ریکروٹنگ ایجنسی میں لے گئی۔ میں میرینز کو جوائن کرنا چاہتا تھا لیکن میری سییلکشن انفینٹری میں ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ میں چار سال آرمی میں کام کروں گا، اس کے بعد دوبارہ کالج میں داخلہ لے لوں گا یا فٹ بال ٹیم کی جانب چلا جاؤں گا، لیکن سپیشل فورسز گروپ نے میرا سارا پلان چوپٹ کر دیا۔ اس وقت میں فورٹ لویس میں تعینات تھا، میرا چار سالہ کنٹریکٹ پورا ہونے کو تھا کہ مجھے ایک دن سپیشل سروسز گروپ کے جوانوں کے ساتھ شوٹنگ رینج میں گزارنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد ایک اور دن۔ میں ان کی مہارت، معلومات اور کام کے ساتھ لگن دیکھ کر حیران تھا۔ میں بھی ان جیسا بننا چاہتا تھا۔ سپیشل سروسز گروپ کے لیے سیلکٹ ہونا اور خود کو اس کا اہل بنانا آسان نہیں تھا، میں جان توڑ مشقت اور کاوشوں کے بعد ایسا کر پایا۔ سپیشل سروسز گروپ کی تربیت انتہائی سخت اور مشکل تھی۔ ایک سالہ کورس کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹا گیا تھا۔ انتہائی کڑی جسمانی تربیت کے دوران میرا دائیں پھیپھڑا زخمی ہو گیا، جس کا اصل اثر تین سال بعد ہوا، جب میرے دائیں پھیپھڑے نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا۔ مجھے آرمی سے فارغ کرکے (اپنی سابقہ آئر بورن کی کولیگ اور گرل فرینڈ ریبکا کے ساتھ) تھراپی کے لیے بھیج دیا گیا۔ مکمل صحت یابی تک مجھے اپنی ڈیوٹی پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے انسٹریکٹر بننے کی آفر کی گئی لیکن میں نے اسے رد کر دیا۔ اسی دوران نو گیارہ کا سانحہ ہو گیا۔ ان دنوں میں اپنے بیماری سے لڑ رہا تھا، آپ میری دماغی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتے، میری حالت اس کھلاڑی کی سی تھی جس نے برسوں ایک میچ کی پریکٹس کی ہو، لیکن عین کھیل سے پہلے اسے باہر بٹھا دیا گیا ہو۔ 2003ء میں مکمل صحت یاب ہونے کے بعد میں دوبارہ سپیشل سروسز گروپ میں پہنچا لیکن ڈاکٹر نے مجھے ٹیسٹ میں پاس کرنے سے انکار دیا، وہ مجھے انفینٹری میں رکھنے پر بھی تیار نہیں تھے۔ مجھے ایڈمنسٹریشن میں پیپر ورک پر مامور کر دیا گیا، لیکن یہ کام میرے مزاج کے مطابق نہیں تھا، اس لیے میں نے اسے خیر آباد کہہ دیا۔
جو گن میں استعمال کر رہا تھا، یہ نئی نکور گلوک17 تھی، جو میری لاہور آمد پر مجھے جاری کی گئی تھی، اس کے علاوہ جی پی ایس، دو طرفہ میٹرولا وائرلیس اور دوسری چیزیں جو مجھ سے پہلے کنٹریکٹر کے استعمال میں تھیں۔
میں مزنگ چوک لاہور میں ایک ایسے گن بردار کے سامنے بیٹھا تھا جس کے پستول کا رخ میری جانب تھا۔ اگر ٹریفک نہ ہوتی تو میں شاید بھاگنے کو ترجیع دیتا، لیکن یہاں بمپر سے بمپر گاڑیاں لگی ہوئی تھیں، میں دائیں بائیں کہیں بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یا اگر میں اپنی آرمڈ ایس یو وی لے آتا تو پھر بھی معاملہ مختلف ہوتا کیوں کہ کسی فائرنگ کی صورت میں بھی میں گاڑی کے اندر محفوظ رہتا، لیکن میں ایک سیڈان کار میں بیٹھا تھا اور اپنی تربیت کے مطابق مجھے اپنا دفاع کرنا تھا اور یہی میں نے کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ستر سال بعد وہی دن دبارہ آ رہا ہے– سید عبدالوہاب شیرازی
جیسے ہی میں نے پستول کا رخ اپنی جانب ہوتا دیکھا، سیٹ بیلٹ کو کھول کر پہلو سے لگے ہولسٹر سے اپنا پستول نکال لیا۔ میری پوری زندگی اسی چیز کی ٹریننگ کرتے ہوئے گزری تھی، میرا شرٹ اٹھا کر اس کے نیچے سے گن نکال کر فائر کرنے کا اوسط وقت صرف ۱.۱ سیکنڈ تھا۔ موٹر بائیک پر بیٹھے لڑکے نہیں جانتے تھے کہ میں پستول نکال کر فائر کرنے میں کتنا پھرتیلا ہوں، ورنہ وہ میری بجائے کسی اور پر حملہ کرنے کو ترجیع دیتے۔ اپنا پسٹل نکال کر سیٹرنگ وہیل کلیئر کرتے ہوئے میں نے موٹر سائیکل سواروں پر دس فائر کیے، جو ونڈ سکرین میں سوراخ کرتے ہوئے اپنے صحیح نشانے پر لگے۔ اگر یہ امریکن ونڈ شیلڈ ہوتی تو پارہ پارہ ہو جاتی لیکن پاکستان میں ونڈ سکرین مختلف طریقے سے بنائی جاتی ہیں۔ جو گن میں استعمال کر رہا تھا، یہ نئی نکور گلوک17 تھی، جو میری لاہور آمد پر مجھے جاری کی گئی تھی، اس کے علاوہ جی پی ایس، دو طرفہ میٹرولا وائرلیس اور دوسری چیزیں جو مجھ سے پہلے کنٹریکٹر کے استعمال میں تھیں۔ پاکستان جیسے پرہنگم ملک میں ہم جیسے کنٹریکٹر کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے، ہم ہر وقت جہاں ایسے آتے جاتے ہیں، جیسے گھومنے والا شیشے کے دروازے سے۔ میں صبح نکلا تو میرے پسٹل کے چیمبر میں سترہ گولیاں تھیں۔ جن میں سے اب سات باقی تھیں، یہ سارا معاملہ دو تین سیکنڈ میں نمٹ گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment