Tuesday, 7 November 2017

صحافیوں کی عالمی تنظیم بعد آئی سی آئی جے نے پاناما لیکس



                                                                                   
                                                             
                                        صحافیوں کی عالمی تنظیم بعد آئی سی آئی جے نے پاناما لیکس

کی طرح ایک لیکس جاری کر دی ، نئی لیکس کو پیراڈایئر پیپرز کا نام دیا گیا ہے ،پیرا ڈائیز پیپرز میں پیراڈائز لیکس میں 25 ہزار سے زائد آ کمپنیوں کا انکشاف کیا گیا ہے جبکہ لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے،دنیا کی معروف شخصیات اور کمپنیوں کے نام شامل ہیں، پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے،
نیشنل انشورنس کارپوریشن کے سابق سربراہ ایاز خان نیازی کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے ،دستاویز میں جن بین الاقوامی شخصیات کے نام آئے ہیں ان میں ملکہ برطانیہ الزبتھ،سابق ملکہ برطانیہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، امریکی وزیر تجارت ولبر راس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 13 قریبی ساتھی، کینیڈین وزیراعظم کے قریبی ساتھی و مشیران، اردن کی سابق ملکہ نور، یورپ میں نیٹو کے سابق کمانڈر ویزلے کلارک بھی شامل ہیں ۔اتوار کے روز آئی سی آئی جے نے پاناما لیکس کی طرح پیراڈائز پیپرز کمپنی ’’ایپل بائی‘‘ کی دستاویز جاری کیں،پیراڈائز پیپرز میں 47 ممالک کے 127 نمایاں افراد کے نام شامل ہیں۔ آئی سی آئی جے کے نمائندے عمر چیمہ نے نجی ٹی سے گفتگو میں بتایا کہ پیراڈائز لیکس میں ایک کروڑ 34 لاکھ دستاویزات شامل ہیں اور اس کام کے لیے 67 ممالک کے 381 صحافیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔پیراڈائز لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے اور یہ دستاویزات سنگاپور اور برمودا کی دو کمپنیوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ پیرا ڈائز پیپرز پہلے جرمن اخبار نے حاصل کیے اور آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیے۔ان میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زائد کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں 1950 سے لے کر 2016 تک کا ڈیٹا موجود ہے۔
پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے سب سے زیادہ شہریوں کے نام آئے ہیں ان میں امریکا 25 ہزار 414 شہریوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ برطانیہ کے 12 ہزار 707 شہری، ہانگ کانگ کے 6 ہزار 120شہری، چین کے 5 ہزار 675 شہری اور برمودا کے 5 ہزار 124 شہری شامل ہیں۔پیرا ڈائیز پیپرز کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا ٹرسٹ بھی سامنے آیا ہے ، شوکت عزیز
کا برمودا میں انٹارکٹک ٹرسٹ ہے جو انہوں نے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا ،
شوکت عزیز ، ان کے بچے اور اہلیہ ٹرسٹ کے بینی فیشل اونر ہیں،دستاویزات کے مطابق وزیر خزانہ بننے سے کچھ پہلے شوکت عزیز نے ڈیلاویر (امریکا) میں ٹرسٹ قائم کیا جسے برمودا سے چلایا جارہا تھا۔نیشنل انشورنس کارپوریشن کے سابق سربراہ ایاز خان نیازی کا نام بھی نئی دستاویزات میں شامل ہے،ایاز خان نیازی کے برٹش ورجن آئی لینڈ میں چار آف شور اثاثے سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اینڈالوشین ڈسکریشنری ٹرسٹ (Andalusian Discretionary Trust) نامی ٹرسٹ تھا۔ باقی تین کمپنیاں تھیں جن کے نام یہ تھے:
اینڈالوشین اسٹیبلشمنٹ لیمیٹڈ، اینڈالوشین انٹرپرائسز لیمیٹڈ اور اینڈالوشین ہولڈنگز لمیٹیڈ۔ان سب کو 2010 میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب ایاز نیازی این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے۔ایاز نیازی کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی بینی فشل اونر تھے جبکہ ایاز نیازی، ان کے والد عبدالرزاق خان اور والدہ فوزیہ رزاق نے بطور ڈائرکٹر کام کیا۔ پیرا ڈائیز پیرز میں ملکہ برطانیہ کا نام بھی سامنے آیا ہے ، دستاویز کے مطابق ملکہ الزبتھ نے آف شور کمپنیوں میں کئی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے حوالے
سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ انہوں نے میڈیکل اور کنزیومر لون کے شعبے میں کام کرنے والی آف شور کمپنیوں میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دستاویز کے مطابق ملکہ برطانیہ کی ذاتی اسٹیٹ کمپنی ڈچی آف لنکاسٹر نے 2007 تک کے مین آئی لینڈز کے ایک فنڈ میں سرمایہ کاری کی جس نے آگے ایک پرائیوٹ ایکوئٹی کمپنی میں سرمایہ کاری کرتی تھی۔ یہ کمپنی غریب افراد کو ادھار پر گھریلو اشیاء فراہم کرتی تھی جس پر شرح سود 99.9 فیصد تک تھا۔دستاویز میں جن بین الاقوامی شخصیات کے نام آئے ہیں
ان میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، امریکی وزیر تجارت ولبر راس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 13 قریبی ساتھی، کینیڈین وزیراعظم کے قریبی ساتھی و مشیران، اردن کی سابق ملکہ نور
یورپ میں نیٹو کے سابق کمانڈر ویزلے کلارک بھی شامل ہیں، اردن کی سابق ملکہ نور کا نام بھی سامنے آیا ہے جو جرسی نامی جزیرے میں دو ٹرسٹوں کی استفادہ کنندہ (بینیفیشری) کے طور پر سامنے آئی ہیں۔پیراڈائز پیپرز میں دنیا کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس بچانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔
دستاویز کے مطابق فیس بک نے اربوں ڈالر کا منافع آئرلینڈ کے ذریعے ’کے مین‘ آئی لینڈ منتقل کیا جہاں ٹیکس شرح صفر فیصد ہے۔ فیس بک کچھ ملکوں میں اشتہارات سے ملنے والے منافع پر ٹیکس ادا نہیں کرتی۔یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر رہنے والے سابق امریکی جنرل ویزلے کلارک بھی ایک آن لائن گیمبلنگ کمپنی کے ڈائریکٹر تھے اور اس کمپنی کی ذیلی آف شور کپمنیاں بھی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مائیکروسوفٹ کے شریک بانی پال ایلن اور ای بے کے بانی پائری اومیڈیار کا نام بھی سامنے آئے ہیں
اور ان کی جانب سے بھی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا ہے۔معروف امریکی گلوکارہ میڈونا اور پاپ سنگر بونو نے بھی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔ اس کے علاوہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے قریبی ساتھی اور مشیر اسٹیفن برونفمین کا نام بھی پیراڈائز پیپرز میں ہے جبکہ موجودہ امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے بھی روسی بااثر شخصیات کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی سے مالی فائدے حاصل کیے۔ انہوں نے کے مین ا?ئی لینڈز میں موجود متعدد کمپنیوں کے
ذریعے نیویگیٹر ہولڈنگ نامی جہاز رانی کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔کھیلوں کی ملبوسات بنانے والی کمپنی نائیکی جیسی بڑی کمپنی نے ہالینڈ میں ایسا سیٹ اپ بنا رکھا ہے جس کے ذریعے یورپ اور مشرق وسطیٰ سے ملنے والے منافع کے بڑے حصے پر ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اس خطے سے ملنے والا منافع تقریباً ساڑھے 8 ارب یورو تک پہنچتا ہے۔ کمپنی نے امریکا سے باہر تقریباً 12.25 ارب ڈالر جمع کیے جن پر 2 فیصد سے بھی کم ٹیکس دیا۔دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے حوالے سے یہ تفصیلات آئی ہیں کہ یورپی یونین کے کمیشن نے گزشتہ سال ایپل کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹیکس کی مد میں 
13 ارب یورو آئرلینڈ کو ادا کرے۔ یہ مقدمہ اب بھی یورپی عدالت انصاف میں زیر سماعت ھے      
                                                                                                                                                             کیے جن پر 2 فیصد سے بھی کم ٹیکس دیا۔دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے حوالے سے یہ تفصیلات آئی ہیں کہ یورپی یونین کے کمیشن نے گزشتہ سال ایپل کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹیکس کی مد میں 13 ارب یورو آئرلینڈ کو ادا کرے۔ یہ 
مقدمہ اب بھی یورپی عدالت انصاف میں زیر سماعت ھے                   
                                                                               قومی احتساب بیورو(نیب) کو سابق وزیراعظم نوازشریف سمیت 
درجنوں سیاسی رہنماؤں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق مختلف ممالک کو لکھے گئے        ذرائع کے مطابق نیب نے قانونی معاونت کے لئے متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، قطر ، برطانیہ سمیت 21ممالک کو خطوط لکھے تھے جس کے باعث تمام ممالک سے جواب آنا شروع ہو چکے ہیں اور بیشتر ممالک نے اثاثوں سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کا عندیہ دیدیا ہے ۔گلف سٹیل مل اور ایف زیڈ ای کمپنی کی معلومات دینے کے لئے دبئی نے آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ دوسری جانب العزیزیہ سٹیل مل کا ریکارڈ سعودی عرب نے بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔برطانوی حکام نے لندن فلیٹس اور آف شور کمپنیوں سے متعلق ریکارڈ فراہم کرنے کے حوالے سے نیب کے خطوط میں لکھی معلومات کو ناکافی قرار دیا اور مزید تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔برطانوی حکام کا موقف ہے کہ اگر نیب مطلوبہ معلومات کے لئے ٹھوس وجوہات بتانے میں کامیاب ہو گیا تو اس کیساتھ اہم معلومات کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب حکام نے برطانوی اعتراضات کو دور کرنے کے لئے انتہائی مفصل جواب تیار کرلیا ہے جو جلد برطانیہ کا دورہ کرنے والی نیب ٹیم ساتھ لے جائے گی اور جواب ملنے کے بعد شریف خاندان کیخلاف ایک ضمنی ریفرنس تیارکیے جانے کا امکان ہے ۔    

Sunday, 16 July 2017

کنٹریکٹر (تلخیص مصنف : ریمنڈ ڈیوس شریک مصنف : سٹارم ریبیک



 کنٹریکٹر (تلخیص
مصنف : ریمنڈ ڈیوس
شریک مصنف : سٹارم ریبیک
ترجمہ : ریحان اصغر سید


        

آج کل ریمنڈ ڈیوس کی کتاب دی کنٹریکٹر ہر جگہ موضوع بحث ہے۔ ہم نے جزئیات اور تفصیلات کو چھوڑ کر پوری کتاب کا ایک عمومی سا خلاصہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے مصروف اور انگلش سے نابلد افراد کے لیے یہ کاوش سودمند ثابت ہوگی.

کیا ستم ظریفی ہے کہ بعض دفعہ چند معمولی اور غیر اہم فیصلے جب یکجا ہوتے ہیں تو نیتجہ ایک خطرناک حادثے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس صبح مجھے بیدار ہوئے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا جب میرے ٹیم لیڈر کے پوچھنے پر مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ مجھے آج ایس یو وی (ایک بڑی فور بائی طاقتور انجن والی جیپ) استعمال کرنی ہے یا ایک قدرے چھوٹی سیڈان کار۔

عموما جنوبی ایشیا کی کھردری اور خستہ حال سڑکوں کے لیے ہماری پہلی پسند آرمڈ ایس یو وی ہی ہوتی ہے، لیکن اس دن میں نے اپنےاستعمال کے لیے کار کو لے جانا پسند کیا۔
میرا نام ریمنڈ ڈیوس ہے، میں ایک سکیورٹی کنٹریکٹر ہوں۔ میرا کام بیرون ملک کام کرنے والے امریکیوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دراصل ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو خود ان کے اپنے آپ سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ مجھے غلط مت سمجھیے گا، مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے شعبوں کے بڑے ماہر، ہنر مند اور ذہین انسان ہوتے ہیں، لیکن یہ اکثر حالات کا رخ اور خطرات کی نوعیت پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں، مثال کے طور پر ایک دفعہ میں افغانستان میں یو ایس ایڈ پروگرام کی ٹیم کے ساتھ مامور تھا۔ میری تمام تر ہدایات کے باوجود ایک خاتون رکن نے خود کو بارودی سرنگوں سے بھرے ہوئے میدان میں پھنسا لیا، اور مجھے اپنی جان پر کھیل پر اسے بچانا پڑا۔ ہمارے کام میں ہر وقت خطرات سے سامنا رہتا ہے. اگر میں یہ کہوں کہ میرے کیرئیر میں جب جب میرا موت سے آمنا سامنا ہوا، اور یہ واقعات مجھ پر اثرانداز نہیں ہوئے تو یہ جھوٹ ہوگا۔ ایک دفعہ ہم ڈک چینی کے دورہ افغانستان کے موقع پر انھیں امریکی سفارت خانے سے صدارتی محل میں لے جانے کی مہم پر تھے۔ میں ایڈونس لیڈ کار جسے جیمر کہا جاتا ہے، چلا رہا تھا۔ میرا کام ٹریفک کو ہٹاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ڈک چینی کا کانوائے بغیر رکاوٹ کے چلتا رہے۔ اسی دوران ہائی وے کے بائیں جانب سے ایک کار نمودار ہوئی اور تیزی سے ہماری جانب بڑھنے لگی۔ میں نے شاٹ گن پر مامور اپنی ٹیم کے ساتھی کو کہا کہ وہ ریڈیو پر کانوائے کی گاڑیوں کو بتائے کہ وہ سڑک کے انتہائی جانب ہو جائیں۔ اور میں نے اپنی گاڑی کا رخ بائیں جانب سے آنے والی مشکوک گاڑی کی جانب موڑ دیا۔ میری ذمہ داری امریکی نائب صدر کے گاڑیوں کے قافلے کو (جو ہمارے سر پر پہنچ چکا تھا) ہر قیمت پر محفوظ رکھنا تھا۔ اگر نمودار ہونے والی کار بارودی مواد سے بھری ہوئی تھی تو مجھے اس سے اپنی گاڑی ٹکرا کے اسے موٹر کیڈ سے ہر ممکن دور پھٹنے پر مجبور کرنا تھا، چاہے اس دوران میری اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔ خوش قسمتی سے مشکوک کار عین وقت پر دور چلی گئی۔



اُن دنوں پاکستان امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، اس لیے امریکنز، خاص طور پر وہ جو سفارت خانوں سے منسلک ہیں، ان کے لیے اس ملک میں سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ انھیں جگہ جگہ چیکنگ کے بہانے روکا جاتا، کاغذات طلب کیے جاتے اور یہ سلسلہ سڑک کے کنارے کئی گھنٹوں تک چلتا رہتا، یہاں تک کہ سفارت خانے سے کوئی سینئر آفیشل ہماری مدد کو آتا۔
میں ایک ہفتہ پہلے ہی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچا تھا۔ اس کے بعد میں لاہور آ گیا۔ پچھلے دو سالوں میں یہ پاکستان میں میرا نواں ٹرپ تھا۔ ان میں آدھے میں نے پاکستان کے ایک سرحدی شہر پشاور اور آدھے لاہور میں گزارے۔ لاہور ایک گنجان آباد، زندہ دل اور تہذیبی طور پر امیر شہر ہے۔ میں سفید سیڈان میں اپنی رہائش گاہ سے نکلا، جہاں میرے باقی ساتھی مقیم تھے۔ میری ساری توجہ اپنے اگلے ٹاسک پر تھی۔ میرا مقصد مقررہ راستوں سے گزرتے ہوئے ممکنہ خطرات کا جائزہ لینا تھا۔ پاکستان جیسے ملک میں، جو ہنوز دہشت گردی کی سب سے بڑی اور سرسبز نرسری ہے، آپ کو ہر وقت چوکنا اور محتاط رہنا پڑتا ہے۔ میں مستقل طور پر ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ میرا لاہور میں پانچواں دن تھا۔ اور یہ میرا روز کا معمول تھا کہ میں گاڑی پر شہر میں نکل آتا، گلیوں اور سڑکوں کی پہچان کرتا اور موسم سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا۔ جب بھی میں لاہور میں ڈرائیو کر رہا ہوتا تھا تو میرا واسطہ سڑکوں پر رکھی گئی رکاوٹوں اور چیک پوائنٹس سے پڑتا رہتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:   دی کنٹریکٹر (آخری قسط) - ریحان اصغر سید
اُن دنوں پاکستان امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، اس لیے امریکنز، خاص طور پر وہ جو سفارت خانوں سے منسلک ہیں، ان کے لیے اس ملک میں سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ انھیں جگہ جگہ چیکنگ کے بہانے روکا جاتا، کاغذات طلب کیے جاتے اور یہ سلسلہ سڑک کے کنارے کئی گھنٹوں تک چلتا رہتا، یہاں تک کہ سفارت خانے سے کوئی سینئر آفیشل ہماری مدد کو آتا۔ میں سفید سیڈان میں ٹریفک کے بہاؤ کا جائزہ لیتا ہوا جیل روڈ پر گامزن تھا۔ یہ ایک بڑی سڑک ہے جس کے دونوں اطرف تین تین لینز ہیں، درمیان میں گھاس کا قطعہ ہے۔ ہم فیروز پور روڈ کے سنگم پر تھے۔ یہ ایک مشہور اور مصروف جگہ ہے جسے مزنگ چوک کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے ٹریفک کا بہاؤ رک سا گیا تھا۔ میرے چاروں طرف گاڑیاں، رکشے موٹر سائیکل اور سائیکل سوار تھے۔ مجھے ٹریفک جام میں پھنسے ابھی دو منٹ ہوئے ہوں گے۔ میں حسب معمول اپنے اردگرد کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا۔ جہاں بھی مجھے لوگوں کے بیچ میں کچھ وقت گزارنا پڑتا تو یہ میرا معمول تھا کہ میں ہر وقت اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھتا رہتا تھا۔ اسی اثنا میں، میں نے اپنے سامنے ایک سیاہ موٹر سائیکل کو پایا جس پر دو نوجوان سوار تھے۔ ہیملٹ پہنے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان (جس کا نام بعد میں فیضان حیدر معلوم ہوا) نے اپنے ہاتھ موٹر بائیک کے ہینڈل بار پر رکھے ہوئے تھے، اس کے بالکل پیچھے محمد فہیم بیٹھا ہوا تھا جس کا اوپر والا دھڑ میری جانب اس طرح مڑا ہوا تھا کہ اس کا چہرہ مجھ سے بمشکل دس فٹ دور تھا۔ حتی کہ میں اسے اپنے پہلو سے پستول نکالتے ہوئے اس کے ہاتھ کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ پاکستان میں اسلحہ رکھنا ایک معمول کی چیز ہے لیکن جب کوئی بھیڑ میں آپ پر بندوق تان لے تو وہ شخص آپ کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ جب آپ ایسی صورتحال میں پھنس جائیں جہاں آپ کی جان کو خطرہ ہو تو بیشتر لوگوں کے اعصاب ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے وہ معمول کے کام سرانجام دینے سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں تھا۔ میری تربیت دنیا کے سب سے بہترین انسٹرکٹز نے کی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر میں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ اپنے آگے پیچھے اردگرد ہر چیز کو میں بخوبی دیکھ پا رہا تھا حتی کہ اپنی ونڈ سکرین پر جمی دھول کے دھبوں کو بھی۔ اور ان دو نوجوانوں کو بھی جو میری کار سے کچھ آگے ایک موٹر بائیک پر سوار تھے۔ گن برادر لڑکے کی گن کی نال کا رخ پہلے زمین کی طرف تھا۔ پھر نال کا رخ کار کی فرنٹ گرل بونٹ سے ہو کر بالکل میرے جسم کی جانب ہو گیا۔

بگ سٹون گیپ ورجینا (جہاں میں پلا بڑھا) کنٹکی کے پہاڑوں کے نزدیک ایک الگ تھلگ جگہ ہے۔ یہاں زندگی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ یہ علاقہ کوئلے کی سرزمین ہے۔ میرے والد بھی ایک کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے۔ جب تک ان پر کوئلے کی ایک سات سو پاونڈ وزنی چٹان نہیں گری تھی۔ جس نے ان کی کمر کو تین جگہ سے توڑ دیا۔ اس حادثے کے وقت میری عمر فقط پانچ سال تھی۔ لیکن پھر بھی اس واقعے کے مجھ پر اثرات بہت گہرے تھے، جب تک میرے والد مکمل صحت یاب ہوتے میری والدہ کو گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے تین تین نوکریاں کرنی پڑیں۔ ہم ہمیشہ پیسے کی تنگی کا شکار رہے اور ہمارا بھوک سے مستقل واسطہ رہتا تھا۔ لیکن مجھے اپنی غربت کا احساس کبھی نہیں ہوا، کیونکہ قصبے کی بیشتر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ وہ تو جب میں قصبے سے نکلا اور دنیا دیکھی تو مجھے تب اندازہ ہوا کہ ہم کس قدر غریب تھے۔

میں ہمیشہ سے ایک جسیم لڑکا تھا۔ ساتویں کلاس میں ہی مجھے آٹھویں کلاس کی فٹ بال ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ میرے والد کھیلوں کے معاملے میں ہمیشہ میری حوصلہ آفزائی کرتے اور میرے میچ حتی کہ مجھے پریکٹس کرتے دیکھنے آتے، جب تک میں چودہ سال کا تھا اور ان کا ہارٹ اٹیک سے انتقال نہیں ہوا تھا۔ ان کی زندگی میں گھر کے اخراجات چلانا کبھی اتنا مشکل نہیں لگتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد ہمیں فوڈ سٹمپس اور حکومتی امداد پر انحصار کرنا پڑا۔ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی صورتحال یا تو آپ کو توڑ دیتی ہے یا کچھ بننے اور کر گزرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کم از کم میں ٹوٹنے والا نہیں تھا۔ میں سردیوں میں برف صاف کرتا اور باقی سارا سال دس ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے اینٹوں اور بلاکس ڈھونے کی مشقت کرتا۔ لیکن میں ساری عمر اینٹوں کی مشقت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں بگ سٹون گیپ سے نکل کر دنیا دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ چیز مجھے مسلح افواج کی ریکروٹنگ ایجنسی میں لے گئی۔ میں میرینز کو جوائن کرنا چاہتا تھا لیکن میری سییلکشن انفینٹری میں ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ میں چار سال آرمی میں کام کروں گا، اس کے بعد دوبارہ کالج میں داخلہ لے لوں گا یا فٹ بال ٹیم کی جانب چلا جاؤں گا، لیکن سپیشل فورسز گروپ نے میرا سارا پلان چوپٹ کر دیا۔ اس وقت میں فورٹ لویس میں تعینات تھا، میرا چار سالہ کنٹریکٹ پورا ہونے کو تھا کہ مجھے ایک دن سپیشل سروسز گروپ کے جوانوں کے ساتھ شوٹنگ رینج میں گزارنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد ایک اور دن۔ میں ان کی مہارت، معلومات اور کام کے ساتھ لگن دیکھ کر حیران تھا۔ میں بھی ان جیسا بننا چاہتا تھا۔ سپیشل سروسز گروپ کے لیے سیلکٹ ہونا اور خود کو اس کا اہل بنانا آسان نہیں تھا، میں جان توڑ مشقت اور کاوشوں کے بعد ایسا کر پایا۔ سپیشل سروسز گروپ کی تربیت انتہائی سخت اور مشکل تھی۔ ایک سالہ کورس کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹا گیا تھا۔ انتہائی کڑی جسمانی تربیت کے دوران میرا دائیں پھیپھڑا زخمی ہو گیا، جس کا اصل اثر تین سال بعد ہوا، جب میرے دائیں پھیپھڑے نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا۔ مجھے آرمی سے فارغ کرکے (اپنی سابقہ آئر بورن کی کولیگ اور گرل فرینڈ ریبکا کے ساتھ) تھراپی کے لیے بھیج دیا گیا۔ مکمل صحت یابی تک مجھے اپنی ڈیوٹی پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے انسٹریکٹر بننے کی آفر کی گئی لیکن میں نے اسے رد کر دیا۔ اسی دوران نو گیارہ کا سانحہ ہو گیا۔ ان دنوں میں اپنے بیماری سے لڑ رہا تھا، آپ میری دماغی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتے، میری حالت اس کھلاڑی کی سی تھی جس نے برسوں ایک میچ کی پریکٹس کی ہو، لیکن عین کھیل سے پہلے اسے باہر بٹھا دیا گیا ہو۔ 2003ء میں مکمل صحت یاب ہونے کے بعد میں دوبارہ سپیشل سروسز گروپ میں پہنچا لیکن ڈاکٹر نے مجھے ٹیسٹ میں پاس کرنے سے انکار دیا، وہ مجھے انفینٹری میں رکھنے پر بھی تیار نہیں تھے۔ مجھے ایڈمنسٹریشن میں پیپر ورک پر مامور کر دیا گیا، لیکن یہ کام میرے مزاج کے مطابق نہیں تھا، اس لیے میں نے اسے خیر آباد کہہ دیا۔


جو گن میں استعمال کر رہا تھا، یہ نئی نکور گلوک17 تھی، جو میری لاہور آمد پر مجھے جاری کی گئی تھی، اس کے علاوہ جی پی ایس، دو طرفہ میٹرولا وائرلیس اور دوسری چیزیں جو مجھ سے پہلے کنٹریکٹر کے استعمال میں تھیں۔
میں مزنگ چوک لاہور میں ایک ایسے گن بردار کے سامنے بیٹھا تھا جس کے پستول کا رخ میری جانب تھا۔ اگر ٹریفک نہ ہوتی تو میں شاید بھاگنے کو ترجیع دیتا، لیکن یہاں بمپر سے بمپر گاڑیاں لگی ہوئی تھیں، میں دائیں بائیں کہیں بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یا اگر میں اپنی آرمڈ ایس یو وی لے آتا تو پھر بھی معاملہ مختلف ہوتا کیوں کہ کسی فائرنگ کی صورت میں بھی میں گاڑی کے اندر محفوظ رہتا، لیکن میں ایک سیڈان کار میں بیٹھا تھا اور اپنی تربیت کے مطابق مجھے اپنا دفاع کرنا تھا اور یہی میں نے کیا۔

یہ بھی پڑھیں:   ستر سال بعد وہی دن دبارہ آ رہا ہے– سید عبدالوہاب شیرازی
جیسے ہی میں نے پستول کا رخ اپنی جانب ہوتا دیکھا، سیٹ بیلٹ کو کھول کر پہلو سے لگے ہولسٹر سے اپنا پستول نکال لیا۔ میری پوری زندگی اسی چیز کی ٹریننگ کرتے ہوئے گزری تھی، میرا شرٹ اٹھا کر اس کے نیچے سے گن نکال کر فائر کرنے کا اوسط وقت صرف ۱.۱ سیکنڈ تھا۔ موٹر بائیک پر بیٹھے لڑکے نہیں جانتے تھے کہ میں پستول نکال کر فائر کرنے میں کتنا پھرتیلا ہوں، ورنہ وہ میری بجائے کسی اور پر حملہ کرنے کو ترجیع دیتے۔ اپنا پسٹل نکال کر سیٹرنگ وہیل کلیئر کرتے ہوئے میں نے موٹر سائیکل سواروں پر دس فائر کیے، جو ونڈ سکرین میں سوراخ کرتے ہوئے اپنے صحیح نشانے پر لگے۔ اگر یہ امریکن ونڈ شیلڈ ہوتی تو پارہ پارہ ہو جاتی لیکن پاکستان میں ونڈ سکرین مختلف طریقے سے بنائی جاتی ہیں۔ جو گن میں استعمال کر رہا تھا، یہ نئی نکور گلوک17 تھی، جو میری لاہور آمد پر مجھے جاری کی گئی تھی، اس کے علاوہ جی پی ایس، دو طرفہ میٹرولا وائرلیس اور دوسری چیزیں جو مجھ سے پہلے کنٹریکٹر کے استعمال میں تھیں۔ پاکستان جیسے پرہنگم ملک میں ہم جیسے کنٹریکٹر کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے، ہم ہر وقت جہاں ایسے آتے جاتے ہیں، جیسے گھومنے والا شیشے کے دروازے سے۔ میں صبح نکلا تو میرے پسٹل کے چیمبر میں سترہ گولیاں تھیں۔ جن میں سے اب سات باقی تھیں، یہ سارا معاملہ دو تین سیکنڈ میں نمٹ گیا تھا۔

Saturday, 15 July 2017

جے آئی ٹی رپورٹ کے چند صفحات۔۔۔

                             
                                                                       

                                                                                                                                 جے آئی ٹی کی وزیراعظم اور دونوں صاحبزادوں کیخلاف نیب ریفرنس کی سفارش
 مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں وزیراعظم نوازشریف سمیت ان کے دونوں صاحبزادوں کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی 256 صفحات پر مشتمل  رپورٹ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے پاس جو ذرائع آمدن ہے وہ ان کے رہن سہن سے مطابقت نہیں رکھتی جس کے باعث ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد پایا جاتا ہے۔جب کہ پاکستان میں موجود کمپنیوں کامالیاتی ڈھانچہ مدعاعلیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ وزیراعظم، حسن اور حسین نواز کی دولت معلوم ذرائع سے زیادہ ہے اور ایسی صورت میں نیب کے سیکشن 9 کے تحت ریفرنس بنتا ہے، نیب آرڈیننس سیکشن 9 اے وی کا اطلاق تب ہوتا ہے جب اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ ہوں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جو تحقیقات ہوئیں اس کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ حسین نواز کی طرف سے نوازشریف کو کروڑوں روپے کی رقم بھجوائی جاتی رہی ہے اور بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی جب کہ بے قاعدہ ترسیلات اور قرض نوازشریف، حسین نواز اور حسن نواز کو ملا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیقاعدہ ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی، یو اے ای کی کیپٹل ایف زیڈای کمپنیوں سیکی گئیں اور نوازشریف، حسین، حسن نواز جے آئی ٹی کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے۔رپورٹ کے مطابق یہ رقوم سعودی عرب میں ہل میٹل کمپنی کی طرف سے ترسیل کی گئیں۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہیکہ سعودی عرب کے اندر جو ہل میٹل اسٹیل ملز ہے اس کے لیے قرض لیے گئے اور جو دیگر ذرائع آمدن ہے اس کا واضح جواب نہیں دے سکے ہیں۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا یہ بات کہ لندن کی پراپرٹیز اس بزنس کی وجہ سے تھیں آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔رپورٹ کے مطابق حسن نواز کی لندن میں جو فلیگ شپ اونر کمپنی اور جائیدادیں ہیں اس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کی ریوالونگ میں مصروف تھیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ ان فنڈز سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں، انہی آف شور کمپنیوں کو برطانیہ میں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نیب آرڈیننس سیکشن9 اے وی کیتحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے لہذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے۔۔۔۔
حکومت نے پیر سے پہلے رپورٹ چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔

Tuesday, 27 June 2017

Bahawalpur Oil Tanker Incident


                                                                                     

                                                                                                                                          کھیتوں میں جلی ہوئی انسانی لاشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور نسانی جسموں کے جلنے کی بو نے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیاخر انہوں نے جرم ہی کیا کیا تھا؟وہی نا جو سارے بڑے کر رہے ہیں؟یہ بیچارے تو بس چند لیٹر پٹرول کے لیے ہی دوڑے تھے نا؟وہ بھی یوں کہ چلو فصل بیچ کر خریدی گئی بائیک پر عید اچھی گزر جائے گی۔بچوں کو نانی سے ملوا لاؤں گاجھولے دلوا لاؤں گا!
- [ ] آہ اصل ذمہ دار کون؟یہ سسٹم جو اشرف المخلوقات کو بنیادی انسانی وقار اور اقدار بھی نہیں سکھاتا۔جو وسائل کے ہوتے ہوئے بھی انھیں جان بوجھ کر اس حال میں رکھتا ہے تا کہ یہ روٹی کے ٹکڑوں اور پٹرول کے ایک لیٹر کی دوڑ سے آگے نہ سوچ سکیں، اور جب حاکم نادرا کارڈ اور بےنظیر سپورٹ پروگرام کے تحت انھیں جانوروں کی طرح بنکوں کےے باہر کھڑا رکھ کر چند سکے اچھالیں تو یہ احسان مند ہو کر ووٹ جیسی بےکار سی چیز ان کے ڈبے میں ڈال دیں۔
ذمہ دار ہیں وہ قوتیں جو ان مظلوموں کی حالت اور ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر ان کو شعور فراہم کرنے کا پلان نہیں رکھتیں، معیاری تعلیمی ادارے نہیں بناتیں، دیہاتی اسٹیج تھییٹر، کوئی ڈرامہ، کوئی سوشل میڈیا کا استعمال کر کے انھیں احساس نہیں دلاتیں کہ سسٹم اور اس کے بڑے چوہدری دراصل اس عوام کے کمی 
اور مزارع ہیں۔

ذمہ دار وہ ہیں جو ان کے باشعور نوجوانوں کو روٹی کی تلاش میں علاقہ چھوڑ دینے یا پھر مراعات یافتہ کلاس سے اپنی قیمت لگوا کر چپ ہو رہنے کی تربیت کرتے ہیں۔
میرے نبی ص کے مظلوم مقتول امتیو!کل جب آقا کے سامنے پیش ہو تو ان کو اپنے رستے زخم دکھانا، اپنے جلنے کی اذیت بتانا، مجھے یقین ہے آقا آبدیدہ ہو جائیں گے۔ تم انہیں بہت پیارے ہو۔ ان کو بتا دینا آقا ہمیں اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہمارے لوٹے ھوے پیسوں پیسوں سے آپ کے مزار کی جالیوں کے بوسے لینے جاتے تھے۔ ان سے عرض کرنا آقا اگر ہدایت ان کے نصیب میں نہیں تو ان سے نجات ہمارے نصیب میں لکھوا دیجییے۔

مڈل ایسٹ ویڈیو            

Sunday, 18 June 2017

انعام الرحمان سحری

                                                             
                                                                                                                                انعام الرحمان سحری          

                                                                       
     
       

                                                                                                                                 انعام الرحمان سحری FIA میں ڈپٹی ڈائریکٹر فنانشل کرائم تعینات تھے۔۔۔انہوں نے FIA کی ہدایات پر شریف فیملی کی منی لانڈرنگ لوٹ مار اور کرپشن پر تحقیق کی۔۔۔انہوں نے موٹروے میں 8 بلین کمیشن اور اس کمیشن کو لندن منتقل کرنے اور لندن میں فلیٹس خریدنے کے ثبوت جمع کیے۔۔۔

ان سے تمام ثبوت رحمان ملک نے لیے، رحمان ملک بینظیر کے رول پہ تھے۔۔۔انہوں نے یہ ثبوت برے وقت کے لیے سنبھال لیے۔۔۔رحمان ملک نے ان ثبوتوں کی بنیاد پر زرداری سے ملکر شریف فیملی کو بلیک میل کیا۔۔اور یوں زرداری کی نظروں میں معتبر ٹھرا۔۔۔۔رحمان ملک نے ان ثبوتوں کی قیمت وصول کی۔۔۔۔لندن میں کاروبار کیا۔۔۔۔لیکن

انعام الرحمان سحری شریف فیملی کے انتقام کا شکار ہوئے اور ملازمت سے سبکدوش کر دیے گئے۔۔۔۔۔آج یہ لندن میں سیٹل ہیں۔۔۔۔پاکستان میں پھر شریفوں کی کرپشن کا زکر چھڑا ہوا ہے۔۔۔کیس چل رہے ہیں۔۔۔شریف آج بھی عدالتوں کو ٹھینگا دکھا رہے ہیں۔۔۔۔ثبوتوں کی عدم دستیابی پر ٹھٹھے اور مذاق اڑا رہے ہیں۔۔۔تمسخر اڑاتے ہیں جاو ثبوت ڈھونڈ لاو۔۔۔۔۔۔۔۔

انعام الرحمان سحری آج لائیو ود ندیم ملک میں آئے۔۔۔موصوف کہتے ہیں مجھے JIT بلا کر تو دیکھے۔۔میرے پاس موٹروے کمیشن اور نواز ہیں۔۔
کی منی لانڈرنگ کے پکے ثبوت ہیں۔۔۔میرے پاس بینکس کے لیٹر ہیڈ پہ ان بینکس کی سٹیٹمنٹ ہیں۔۔قاضی فیملی کے بیان حلفی ہیں۔۔۔غرض مجھے بلاو میں ایک دن میں لندن فلیٹس کی ملکیت کے ثبوتوں کے ساتھ منی لانڈرنگ کے پکے اور سچے ثبوت دوں گا۔۔۔۔یہ وہی ثبوت ہیں جن کی سیڑھی سے رحمان ملک حمام میں بال کاٹتا کاٹتا وزیر داخلہ بن گیا تھا۔۔۔۔۔
انعام الرحمان نے بتایا میں پاکستان آتا ہوں بیان ریکارڈ کرواتا ہوں۔۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ گاڈفادر مجھے ائیرپورٹ سے گھر کے درمیان مروا دے گا۔۔مجھے سیکیورٹی دی جائے۔
اب PTI کو آگے آنا چاہیے انعام ارحمان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔۔یہ اہم ترین گواہ ہے جو بدمست شیطان کی ہار میں اہم 
کردار ہو سکتا ہے۔۔۔۔
                    

اب امتحان اداروں کا ہے، انعام الرحمان کو بلاتے ہیں۔۔اگر وہ خود بھی آتے ہیں تو کوئی ان سے پوچھتا ہے سوال کرتا ہے۔۔۔یا ایک بار پھر مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔انعام الرحمان کے ثبوتوں کو اہمیت دیتے ہیں یا پھر پکوڑوں کے کاغذ قرار دیکر آگے گزر جاتے ہیں     
مڈل ایسٹ ویڈیو

Saturday, 17 June 2017

نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نام :

                                                                               

                                                                                                                                                                                                                                                        نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نام :     
                                                                                           

                                                                                           
                                                                                                                                                                  نورین لغاری، سلمان رمضان عبیدی، خرم بٹ کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے ھونگےجنکی داعش و دیگر تنظیموں نے نے اپنی بھرتیاں سوشل میڈیا سے کی ہیں۔ لہذا جب بھی حقیقی تعلق واسطے کے علاوہ فرینڈز رکویسٹ ملے تو ھر گز ایڈ کریں اور جیسے ہی کوئی آپکو آپکی وال کی بجائے انباکس میں کسی بھی نوعیت کا مذہبی مواد بھیجے تو ہوشیار ہو جائیں۔ ان میں سے اکثر لوگ پہلے آپکو امن پسندی اور اتحاد بین المسلمین کے لحاظ سے مذہبی وڈیوز بھیجیں گے اور جب آپ ان کو قبول کرنے لگیں گے تو پھر وہ مرحلہ وار ڈرون یا گیس حملوں میں مارے جانے والے مسلمان بچوں کی لاشوں کی وڈیوز (اور اسی طرح کی دیگر وڈیوز) بھیج کر آپ میں نفرت اور متشدد جزبات ابھارنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی آنکھیں، کان دماغ روشن رکھیں (سوشل میڈیا ہر طرح کے بے چہرہ لوگوں کی آماجگاہ بن چکا ہے) اور جیسے ہی کسی انجان آئی ڈی سے ایسا مواد انباکس میں موصول ہو اسے فوری طور پر اپنے مُلک کی پولیس یا سائبر کرائم ونگ کو رپورٹ کریں اور ایسے لوگوں کو انفرینڈ اور بلاک کر کے اپنی لسٹ میں شامل دوسرے لوگوں کو بھی انکے بارے میں آگاہ کریں۔ بے حد شُکریہ۔ 

مڈل ایسٹ ویڈیو 


Tuesday, 13 June 2017

فتح مکہ۔


                                                     

تح مکہ۔ 
ﻣﮑﮧّ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺗﮭﺎ ،
" ﺁﺝ ﮐﭽﮫ ﮬﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮬﮯ " ‏( ﻭﮦ ﺑﮍﺑﮍﺍﯾﺎ ‏) ﺍﺳﮑﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﺎﺭﺑﺎﺭ ﺍﭨﮫ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺍﺳﮑﯽ ﺑﯿﻮﯼ " ﮬﻨﺪ " ﺟﺲ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﯿﺮ ﺣﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﮐﻠﯿﺠﮧ ﭼﺒﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮔﺊ ﺗﮭﯽ
" ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ؟ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮬﻮ ؟ "
" ﮬُﻮﮞ ؟ " ﺍﺑﻮُ ﺳُﻔﯿﺎﻥ ﭼﻮﻧﮑﺎ ۔ ﮐُﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ۔۔ " ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﺭﮬﯽ ﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﮔﮭﻮُﻡ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﻮُﮞ " ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ
ﻣﮑﮧّ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮔﮭﻮﻣﺘﮯ ﮔﮭﻮﻣﺘﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﻈﺮ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﺳﯿﻊ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ،
ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﺸﻌﻠﯿﮟ ﺭﻭﺷﻦ ﺗﮭﯿﮟ ، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮩﻞ ﭘﮩﻞ ﺍﻧﮑﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﺑﮭﻨﺒﮭﻨﺎﮬﭧ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﻟﻮﮒ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭘﮍﮪ ﺭﮬﮯ ﮬﻮﮞ
ﺍﺳﮑﺎ ﺩﻝ ﺩﮬﮏ ﺳﮯ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﺟﺎﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﻟﻮﮒ ﮬﯿﮟ
ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮬﯽ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﮑﮧّ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﻏﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﻮ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻟﺸﮑﺮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﻣﮑﮧّ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺉ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ ﮬﯽ ﺁﯾﺎ ﮬﮯ
ﻭﮦ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮬﯿﮟ ؟
ﻭﮦ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﺍﻭﭦ ﻟﯿﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﯾﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﯽ ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮬﻮﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮬﺠﺮﺕ ﮐﺮﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﮈﻭﺏ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ، ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻟﺸﮑﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﮬﮯ
ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻨﺎً " ﻣُﺤﻤّﺪ ﷺ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﻧﺜﺎﺭﻭﮞ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻣﮑﮧّ ﺁﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﮭﮯ "
ﻭﮦ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﮯ ﮬﯽ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻘﺐ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﺮ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ
ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺎ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ " ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﺤﻤّﺪ ﷺ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺠﺎ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ "
ﺍﺳﮑﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻗﺪﻡ ﮐﺊ ﮐﺊ ﻣﻦ ﮐﺎ ﮬﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﮬﺮ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﺗﻮﺕ ﯾﺎﺩ ﺁﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ
ﺟﻨﮓ ﺑﺪّﺭ ، ﺍﺣﺪ ، ﺧﻨﺪﻕ ، ﺧﯿﺒﺮ ﺳﺐ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﺎﭺ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭﺍﻥ ﻣﮑﮧّ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ " ﻣﺤﻤّﺪ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ "
ﮐﯿﺴﮯ ﻧﺠﺎﺷﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ۔۔۔۔
" ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﯽ ﮬﯿﮟ ﺍﻧﮑﻮ ﮬﻤﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺩﻭ "
ﮐﯿﺴﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮬﻨﺪﮦ ﻧﮯ ﺍﻣﯿﺮ ﺣﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻡ ﺣﺒﺸﯽ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮﻭﺍ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﺎ ﺳﯿﻨﮧؑ ﭼﺎﮎ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﮑﺎ ﮐﻠﯿﺠﮧ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭼﺒﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻥ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮬﺎﺭ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﻣﺤﻤّﺪ ﷺ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ۔۔۔
ﺍﺳﮑﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍُﺱ ﺟﯿﺴﮯ " ﺩﮬﺸﺖ ﮔﺮﺩ " ﮐﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺗﮩﮧ ﺗﯿﻎ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ ۔
ﺍُﺩﮬﺮ ۔۔۔۔
" ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺣﻤﺖ ﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﷺ ﻣﯿﮟ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺭﺽ ﺟﻤﻊ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺎﻭﺭﺕ ﭼﻞ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁﮐﺮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﮮ ﺩﯼ
" ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ " ﺧﯿﻤﮧؑ ﻣﯿﮟ ﻧﻌﺮﮦ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺑﻠﻨﺪ ﮬﻮﺍ
ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺧﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺗﮭﯽ
ﺧﯿﻤﮧؑ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮬﻮﮰ ﺍﻭﺭ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺉ ﺟﻮﺵ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ ۔۔
" ﺍﺱ ﺑﺪﺑﺨﺖ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻓﺴﺎﺩ ﮐﯽ ﺟﮍ ﯾﮩﯽ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ "
ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺭﺣﻤﺖ ﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﷺ ﭘﺮ ﺗﺒﺴّﻢ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮬﻮﺍ
ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮬﻮﺉ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﻮﻧﺠﯽ
" ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺅ ﻋﻤﺮ ۔۔ ﺍﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﺩﻭ "
ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺾ ﻟﯿﺌﮯ ﺣﮑﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺗﻮ ﮔﮱ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﺳﺮﺧﯽ ﺑﺘﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﺎ ﺑﺲ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮﮈﺍﻟﺘﮯ
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﷺ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﭼﺎﮬﯽ
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﻮ ﺭﺣﻤﺖ ﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻋﻤﺎﻣﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﭘﺸﺖ ﭘﺮ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮬﻮﮰ ﺗﮭﮯ
ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﭘﯿﻠﯽ ﭘﮍ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﮰ ﻟﮩﺮﺍ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ
ﻟﺐ ﮬﺎﮰ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﺂﺏ ﷺ ﻭﺍ ﮬﻮﮰ ۔۔۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺟﻤﻠﮧؑ ﺳﻨﺎ
" ﺍﺳﮑﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼﺅ ، ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺅ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ۔۔ !! "
ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮬﺎﺭﮮ ﮬﻮﮰ ﺟﻮﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﻤﮧؑ ﮐﮯ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﮯ ﻗﺎﻟﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ۔
ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮ ﮐﭽﮫ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﮬﻮﺍ ﺗﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺧﯿﻤﮧؑ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻏﺼّﮧ ﺳﮯ ﺳﺮﺥ ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺑﻦ ﻗﺤﺎﻓﮧ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺎ ﺗﺎﺛﺮ ﺗﮭﺎ
ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻋﺰﯾﺰﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮬﻤﺪﺭﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺎ ﻣﻼ ﺟﻼ ﺗﺎﺛﺮ ﺗﮭﺎ
ﻋﻠﯽؑ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﻮﻃﺎﻟﺐؑ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺳﭙﺎﭦ ﺗﮭﺎ
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻤﺎ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺁﺧﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﺤﻤّﺪ ﷺ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﭨﮭﺮ ﮔﺊ
ﺟﮩﺎﮞ ﺟﻼﻟﺖ ﻭ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻣﺘﺰﺍﺝ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﺴﮑﺮﺍﮬﭧ ﺗﮭﯽ
" ﮐﮩﻮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ؟ ﮐﯿﺴﮯ ﺁﻧﺎ ﮬﻮﺍ ؟؟ "
ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﮬﻤّﺖ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﻮﻻ ۔۔ " ﻣﻢ ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﮬﻮﮞ ؟؟ "
ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﮬﻮﮰ
" ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﻣﮑّﺎﺭﯼ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮬﮯ ، ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﮬﮯ ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ ، ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﺱ ﺩﺷﻤﻦ ﺍﺯﻟﯽ ﮐﺎ ﺧﺎﺗﻤﮧؑ ﮐﺮ ﮬﯽ ﺩﻭﮞ " ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻮﻧﮩﮧ ﺳﮯ ﮐﻒ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
" ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺅ ﻋﻤﺮ ۔۔۔ " ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﺂﺏ ﷺ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
" ﺑﻮﻟﻮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ۔۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﮯ ﮬﻮ ؟ "
" ﺟﺞ ۔۔ ﺟﯽ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﭖؐ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﺎ ﺩﯾﻦ ﺑﮭﯽ ﺳﭽّﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﺳﭽّﺎ ﮬﮯ ، ﺍﺳﮑﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﭘﻮﺭﺍ ﮬﻮﺍ ۔ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﻣﮑﮧّ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺉ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ "
ﭼﮩﺮﮦؑ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﺂﺏ ﷺ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮬﭧ ﭘﮭﯿﻠﯽ ۔۔
" ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ۔۔
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﻮﮞ ﺟﺎﺅ ﺗﻢ ﺁﺯﺍﺩ ﮬﻮ ، ﺻﺒﺢ ﮬﻢ ﻣﮑﮧّ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﻧﮕﮯ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺟﮩﺎﮞ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺧﻼﻑ ﺳﺎﺯﺷﯿﮟ ﮬﻮﺗﯽ ﺭﮬﯿﮟ ، ﺟﺎﮰ ﺍﻣﻦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﻮﮞ ، ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﮯﻟﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮬﮯ ، "
۔
ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﮭﭩﺘﯽ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯿﮟ
۔
" ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮧّ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ۔۔ ﺟﻮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﮔﯿﺎ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﻣﺎﻥ ﮬﮯ ، ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺴﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ، ﺍﺳﮑﻮ ﺍﻣﺎﻥ ﮬﮯ ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺭﮬﺎ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﻣﺎﻥ ﮬﮯ ،
ﺟﺎﺅ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ۔۔۔ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﮐﺮ ﺻﺒﺢ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻭ
ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﮑﮧّ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮧ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﮐﻮﺉ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﯽ ، ﮬﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﺉ ﺗﯿﺮ ﺗﺮﮐﺶ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﺎ
ﮬﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﺉ ﻧﯿﺰﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮐﻮﺉ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮍﻧﺎ ﻧﮧ ﭼﺎﮬﮯ "
۔
ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﻤّﺪ ﷺ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮬﻮﮰ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ۔۔
" ﺍﺷﮭﺪ ﺍﻥ ﻻﺍﻟﮧٰ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ ﻭ ﺍﺷﮭﺪ ﺍﻥ ﻣﺤﻤّﺪ ﻋﺒﺪﮦُ ﻭ ﺭﺳﻮﻟﮧُ "
۔
ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﮯ ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ
" ﻣﺮﺣﺒﺎ ﺍﮮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ، ﺍﺏ ﺳﮯ ﺗﻢ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺩﯾﻨﯽ ﺑﮭﺎﺉ ﮬﻮﮔﮱ ، ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ ، ﻣﺎﻝ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮﮔﯿﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮬﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﮯ ، ﺗﻢ ﮐﻮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮬﻮ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺧﻄﺎﺋﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯼ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺒﺎﺭﮎ ﻭ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﮰ "
ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ
ﯾﮧ ﻭﮬﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺴﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﻏﺼّﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﺏ ﻭﮬﯽ ﺍﺳﮑﻮ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﺉ ﺑﻮﻝ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ؟
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺩﯾﻦ ﮬﮯ ؟
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﮬﯿﮟ ؟
ﺳﺐ ﺳﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﺧﯿﻤﮧؑ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ
" ﻭﮦ ﺩﮬﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺷﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺗﻨﮓ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮬﻮﺍ ﺟﺎﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﺎ ، ﺍﺱ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﺎ ﮬﺮ ﻓﺮﺩ ، ﮬﺮ ﺟﻨﮕﺠﻮ ، ﮬﺮ ﺳﭙﺎﮬﯽ ﺟﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺏ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮐﺒﺎﺩ ﺩﮮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺧﻮﺵ ﺁﻣﺪﯾﺪ ﮐﮩﮧ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔ "
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ۔۔۔
ﻣﮑﮧّ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺣﺪ ﭘﺮ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﺗﮭﺎ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﻣﮑﮧّ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﻠﻮﺍﺭ ، ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺰﮮ ﮐﯽ ﺍﻧﯽ ، ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺮ ﮐﯽ ﻧﻮﮎ ﭘﺮ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ
ﻟﺸﮑﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﮬﺪﺍﯾﺎﺕ ﻣﻞ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻣﺖ ﮬﻮﻧﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﮐﻮ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻣﺖ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ
ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﭘﺮ ﮬﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﻧﮧ ﻟﻮﭨﻨﺎ
ﺑﻼﻝ ﺣﺒﺸﺊ ﺁﮔﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺎﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ
" ﻣﮑﮧّ ﻭﺍﻟﻮ ۔۔۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﷺ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ۔۔۔
ﺁﺝ ﺗﻢ ﺳﺐ ﮐﯿﻠﯿﺌﮯ ﻋﺎﻡ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮬﮯ ۔۔
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﭘﺮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﮰ ﮔﯽ ،
ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﮯ ﻭﮦ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ
ﺟﻮ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺩﯾﻦ ﭘﺮ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ
ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺬﮬﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮬﻮﮔﯽ
ﺻﺮﻑ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻟﺤﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﯽ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﻣﻌﺎﺵ ﭼﮭﯿﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﺭﺿﯽ ﻭ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ
ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﻥ ﻭ ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ
ﺍﮮ ﻣﮑﮧّ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮ ۔۔۔۔ !! "
۔
ﮬﻨﺪﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﻟﺸﮑﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺳﮑﺎ ﺩﻝ ﮔﻮﺍﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻤﺰﮦ " ﮐﺎ ﻗﺘﻞ ﺍﺳﮑﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ۔۔۔
" ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﻮ ۔۔ ﺳﺐ ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﻣﻌﺎﻑ ﮬﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ "
ﻣﮑﮧّ ﻓﺘﺢ ﮬﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﻨﺎ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪﺩ ، ﺑﻨﺎ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﺎﮰ ، ﺑﻨﺎ ﺗﯿﺮ ﻭ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﭼﻼﮰ ،
ﻟﻮ ﮒ ﺟﻮﻕ ﺩﺭ ﺟﻮﻕ ﺍﺱ ﺁﻓﺎﻗﯽ ﻣﺬﮬﺐ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﯽ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮬﻮﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﺗﺒﮭﯽ ﻣﮑﮧّ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ۔۔۔
" ﺍﺱ ﮬﺠﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﮬﻨﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯽ "
۔
ﯾﮧ ﮬﻮﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﻼﻡ ۔۔ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ۔۔ ﯾﮧ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺭﺣﻤﺖ ﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﷺ ﻧﮯ ہمیں مگر اب ھم کہاں ھیں ؟؟؟؟

مزید مزہبی، سیاسی اور حالات حاضرہ پہ مبنی ویڈیوز کے لئے وزٹ کیجئے:
www.middleeastvideo.com
                                                                                                                                                              

Wednesday, 24 May 2017

زلزله




                                       

                                                                                                                                                    شاہ جی کا گھرانہ جب سے پڑوس میں آباد ھوا تھا محلے میں غیر محسوس انداز سے چند اچھی روایات کا پھر سے احیاء ھوا تھا ۔ لیکن اس میں سارا کمال ان کے چھوٹے سے کم سن برخودار زین کا تھا۔ وہ تقریبا" ہر روز کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز یا سالن بھلے تھوڑی سی مقدار ہی میں صحیح لیکن ہمسائے میں بانٹنے آتا ۔ بڑی معصومیت سے پلیٹ پکڑاتے ھوئے کہتا ۔۔ " نانا جی نے بھیجا ھے " ہم شکریہ سے رکھ لیتے اور نانا جی کو سلام کا کہتے وہ فورا" وعلیکم السلام کہہ کر پلٹ جاتا۔ کبھی کسی کی ولادت کا ختم کبھی کسی کی شہادت کا ۔۔ ہم بڑوں تک کو معلوم نہ ھوتا لیکن متانت سے رکھ لیتے۔ کبھی ویسے ہی تحفتہ" کہ ہم نے بوٹی چاول بنائے تھے۔ آپ بھی لیں۔
بہت پیارا اور حسین سا معصوم چہرہ تھا لیکن ماں یا نانا کی تربیت بھی خوب تھی ۔ اب شرما شرمی اور بھی کچھ گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا شروع ھو گئے تھے ۔ اور بچے ہی نہی ہم بڑے بھی سلام کرنے میں پہل کرنے لگے تھے۔ لیکن ہم نے اس کے والد کے سواء کم ہی کسی کو دیکھا تھا۔ سید تھے تو پردہ تو سخت تھا ہی ۔ لیکن نانا جی بھی کبھی چھت یا گلی میں نظر نہ آئے ۔ چھت پر بھی وہی بچہ پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتا نظر آتا۔
لیکن آج تو کمال ہی ھو گیا۔ میں چھوٹے شاہ جی سے پلیٹ پکڑ ہی رہا تھا کہ زلزلہ آگیا۔ زلزلہ شدید تھا ۔ میں اور باقی محلے دار تیزی سے باہر کو لپکے ۔ لیکن چھوٹے شاہ جی نے اچانک عجب حرکت کی۔ اس بچے نے بڑی زور سے زمین پر داہنا پاوں اٹھا مارا اور تحمکانہ لہجے میں گویا ھوا ۔
اے زمین مت کر !
دیکھتی نہیں ... ہم کھڑے تو ہیں ؟
زلزلہ تو خیر رک ہی گیا لیکن ہمیں ہنسی آگئی ۔ ہم سب نے ننھے زین کو گھیر لیا ۔ وہ گھر کو پلٹ رہا تھا۔ کہ میں نے پوچھا ۔ شاہ جی اگر یہ آپ کی بات نہ مانتی تو ؟
وہ بے نیازی سے بولا ۔ کیسے نہ مانتی !
میں نے کہا پھر بھی اگر نہ مانتی تو ؟
نہیں نانا جی نے بتایا ھے ایسا نہیں ھو سکتا ۔ عجب یقین و اطمنان تھا لہجے میں اور اک شان_ بے اعتنائی جو ہم بڑوں کو اب چبھ رہی تھی ۔
یار آج اپنے نانا جان سے تو ملواو ۔
ہیں ؟
اب وہ تیزی سے پلٹا تھا اور حیران ہماری جانب دیکھ رہا تھا
آپ لوگ نانا جان سے نہیں ملے ؟
عجب بے یقینی حیرت و اچھنبا تھا اس لہجے میں!
شیخ صاحب بولے یار ہمیں تو وہ کبھی باہر نظر ہی نہیں آئے ؟
آپ سب ان کو نہیں دیکھتے ؟
وہ حیران و پریشان ھو گیا تھا ۔ تاسف اور شدید درد تھا اس لہجے میں ۔
کیونکہ ہم سب یک زبان بولے تھے ۔ نہیں ۔
اچھا ۔۔ پھر آپ لوگ مدینہ منورہ ہی ھو آئیں ۔
ایک سنسنی کی لہر تھی جو میرے رگ و پے میں دوڑ گئی ۔۔۔
 ۔ میں میں نہی رہا ۔
وہ ذات کا ہی نہیں کردار کا بھی سید  تھا۔        

Monday, 22 May 2017

ٹیوب ویل کے گرد گاؤں کی کچھ عورتیں

                               

ٹیوب ویل کے گرد گاؤں کی کچھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں کہ ایک عورت نے دوسری سے پوچھ لیا کہ آج کیا کھایا؟ اُس نے جواب دیا

                                                   

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  "کوئی ایک مہینہ پہلے کھیر کی دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ کھیر ہی کھا رہی ہوں"
ایک عورت کے کان میں یہ بات پڑی تو اس نے سوچا میں بھی ایسا ہی کرتی ہوں کھیر ویسے بھی اس کی پسندیدہ ڈش تھی۔۔ چنانچہ اس نے گھر پہنچتے ہی کھیر کی دیگ اتارنے کا پروگرام بنایا۔۔ وہ کھیر کی دیگ سب سے چھپ کر مہینہ بھر اکیلی کھانا چاہتی تھی۔۔ لہذٰا اس نے دیگ پکا کر "تُوڑی" والے کمرے میں چھپا دی۔۔ پہلے دن کھیر کھائی، دوسری دن بھی کھائی، مگر تیسرے دن اس میں سے بُو آنے لگی مجبوراً بھری دیگ ضائع کرنی پڑی۔۔۔ اگلے دن پھر سے وہ ٹیوب ویل پہنچی تو کپڑے دھوتے ہوئے کسی عورت نے اسی عورت سے پوچھ لیا کہ آج کیا کھایا؟ تو اس نے وہی جواب دیا۔۔ "ایک ماہ سے ہر روز کھیر کھارہی ہوں"
وہ اس کے پاس گئی اور حیرانی سے کہنے لگی " بہن میں نے تو دو دن کھائی تیسرے دن اتنی شدید بدبو آنے لگی کہ مجبوراً ضائع کرنا پڑی۔۔۔ تمہاری ہمت ہے جو ایک ماہ سے کھائے جا رہی ہو"
وہ عورت اس کی بات سن کر ہنس پڑی۔۔ اور کہنے لگی "میں نے ایک ماہ پہلے کھیر کی دیگ اتروا محلے کے ہر گھر میں بانٹ دی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے روزانہ جس کسی گھر میں کھیر پکتی ہے وہ میرے گھر بھی بھجوادیتا یے، اس طرح ہر روز کھیر کھاتی ہوں"
دوسروں کے خوشی غم میں شریک ہوں، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں، عزیز و اقارب کے لیے خاص وقت نکالیں، محفلوں اور دعوتوں کا رواج عام کریں، معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یقین کریں آپ کے "فیلنگ سیڈ" پر گردواطراف ہر کوئی فکرمند دکھائی دے گا، راہ چلتے ہوئے پلٹ کر نجانے کتنے سلام آنے لگیں گے، خوشی غمی میں خود کو تنہا نہیں پائیں گے، مشکل مواقع پر عزیز و اقارب اپنی جمع پونجی میں سے بالکل اسی طرح آپ پر خرچ کریں گے جیسا کہ آپ نے کیا ہوگا، آپ کو ہر محفل میں ہر دعوت پر مدعو کیا جائے گا۔۔۔ یہ سارے اعمال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے زمرے میں آتے ہیں، یاد رکھیں!! جو اللہ کی راہ میں ایک بار خرچ کرتا ہے اللہ اسے ہر موقعے پر نوازتا ہے۔۔۔                

                                                                                                             
         

Sunday, 21 May 2017

پاک فضائیہ کی پہلی شہید خاتون مریم مختار

                                                                     


                                                                                                                                                                                                                                                             مڈل ایسٹ ویڈیو۰کام  کی ٹیم  پاک فضائیہ کی پہلی شہید خاتون مریم مختار کو سلام پیش کرتی ہے

یہ ذکر ہے قوم کی ایک ایسی بیٹی کا جس کے مقدر میں شہادت کا عظیم رتبہ لکھ دیا گیا تھا، اٹھارہ مئی انیس سو بانوے کو شہر قائد میں جنم لینے والی اس بہادر پائلٹ کا نام اس کی والد کرنل مختیار احمد نے مریم مختار رکھا،،، مریم نے ابتدائی تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی اور پھر وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں پاک فضائیہ جوائن کرنے پر مجبور کردیا
مریم مختار ایک ہمدرد، محنتی اور پر خلوص انسان تھیں، 24 نومبر 2015ء کی صبح مریم اپنے انسٹرکٹرکے ساتھ معمول کی مشق پر روانہ ہوئیں۔ ضلع گجرات کی فضاؤں میں پرواز کے دوان اچانک طیارے کے انجن میں آگ لگ گئی، حادثے میں دونوں شہید ہوگئے، مریم کو پاک فضائیہ کی پہلی شہید خاتون پائلٹ کا اعزاز ملا۔۔ ان کی زندگی پر ایک ٹیلی فلم ، ایک تھی مریم، بھی بنائی گئی جو عوام میں بہت مقبول ہوئی شہید مریم کو بعداز مرگ تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔ ہم پوری پاکستانی قوم کے ساتھ پاک فضائیہ کی پہلی شہید خاتون مریم مختار کو سلام پیش کرتے ہیں

Friday, 19 May 2017

پاکستان کے صوبہ پنجاب چکوال


                                                                                                                                  
                                                                                                                                                              پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں واقع ہندؤں کے مقدس مقام کٹاس راج مندر کے تالاب کا پانی ان دنوں تقریباً خشک ہوچکا ہے۔

                                                                                                        

        
                                                                                                                                                       چکوال کے علاقے چواسیدن شاہ میں واقع کٹاس راج کمپلیکس میں درجنوں مندروں کے آثار موجود ہیں۔کٹاس راج کے مندروں کا ذکر مہا بھارت جو مسیح سے تین سو سال پہلے کی تصنیف ہے میں موجود ہے۔براہموں کی روایت کے مطابق جب شیو دیوتا کی بیوی ستی مر گئی تو اسے اتنا دکھ ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی اور ان سے دو متبرک تالاب معرض وجود میں آ گئے۔ایک اجمیر کا پشکر اور دوسرا کٹک شیل۔ سنسکرت میں اس لفظ کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کثرت استعمال سے کٹاس بن گیا۔ہندو مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک اس تالاب کا پانی مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہر سال انڈیا سمیت دنیا بھر سے یاتری یہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔


سنہ 2005 میں حکومت پنجاب نے ہندوؤں کے اس مقدس مقام کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے کٹاس کے مندروں کی بحالی کا افتتاح کیا تھا۔ بحالی کا یہ کام سنہ فروری 2014 میں مکمل ہوا تھا۔            




Monday, 15 May 2017

خلیل جبران نے ایک دفع لکھا۔

                                                  
                                    

                                                 

                                                                                                     ’میرے دشمن نے مجھے کہا کہ اپنے دشمن سے محبت کرو۔میں نے اس کا کہا مان لیا اور اپنے آپ سے محبت کرنےلگائے اپنا دشمن میں خود ھی تھا۔   


‎آج ہمیں پانامہ پیپرز کے فیصلے کے بعد ھمیں پانامہ پیپرز کے کیس میں پانچ ججز میں سے ایک جج جناب آصف سعید کھوسہ کا 2012 کا مشہور زمانہ مقدمہ یاد آ رہا ھے۔ 
۔2012ء میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے توہین عدالت کے ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا ۔ یوسف رضا گیلانی پر الزام تھا کہ منی لانڈرنگ کے ایک کیس کو دوبارہ کھلوانے کیلئے سپریم کورٹ نے انہیں سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو خط لکھنے کا حکم دیا لیکن انہوں نے یہ خط نہیں لکھا ۔ خط نہ لکھنے کی پاداش میں انہیں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا اور یوں وہ وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیئے گئے ۔ فیصلہ سنانے والے پانچ میں سے ایک جج آصف سعید کھوسہ تھے جنہوں نے فیصلے میں جبران خلیل جبران کا باربار حوالہ دیا تھا اور کہا تھا کہ جو قومیں طاقتور لوگوں کا احتساب نہیں کرتیں وہ تاریخ میں زندہ نہیں رہتیں۔ 2012ء میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا آب پانچ سال کے بعد انہوں نے پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں فیصلہ سنایا ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کی تقدیر کا فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے کیا ۔ نوازشریف کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے کیا گیلانی پر توہین عدالت کا الزام تھا ۔نواز شریف اور ان کے خاندان پر منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے کا الزام ہے۔ گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ عمران خان اور خواجہ محمد آصف نے دائر کیا تھا۔ نواز شریف کے خلاف مقدمہ بھی عمران خان نے دائر کیا ہے اور خواجہ محمدآصف اپنے لیڈر کا دفاع کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ مکافات عمل ہے لیکن ایسے مہربان بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتیں نواز شریف کے خلاف فیصلے نہیں دیا کرتیں۔ جسے غلط ثابت کرنے کیلئے کئی دلائل دیئے جا سکتے ہیں لیکن اس کی اصل وجہ اپریل 1993ء کا وہ فیصلہ ہے جو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے حق میں سنایا تھا۔
آئیے آج اپریل 1993ء سے اپریل 2017ء تک کا ایک سفر کرتے ھیں ۔اس مختصر سے سفر میں آپ کی حیرانی کے بہت سامان سےموجود ہیں ۔حیرانی اس لئے کہ 1990ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے صدر کے فیصلے کو بالکل درست قرار دیا ۔ 1993ء میں اسی غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کوبرطرف کیا تو سپریم کورٹ نے صدر کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تھی ۔ صدر نے وزیر اعظم نواز شریف کو 18اپریل 1993ء کو برطرف کیا اور سپریم کورٹ نے صرف ایک ہفتے کے بعد 26اپریل 1993ء کو نواز شریف کی حکومت بحال کر دی۔ اس پورے مقدمے کی تفصیل ’’نواز شریف بمقابلہ غلام اسحاق خان ‘‘ کے نام سے ایک کتاب میں اکٹھی کی گئی یہ کتاب مرزا عزیز ا لرحمٰن ایڈووکیٹ نے مرتب کی اور  اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے دستخط اس کتاب پہ کئے آپ جانتے ہونگے کہ نسیم حسن شاہ کھوسہ صاحب کے سسر ہیں اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں نواز شریف حکومت کو بحال کرنے والے بینچ میں جسٹس شفیع الرحمٰن، جسٹس سعد سعود جان، جسٹس عبدالقدیر چودھری، جسٹس اجمل میاں، جسٹس افضل لون، جسٹس رفیق تارڑ، جسٹس سلیم اختر، جسٹس سعید الزمان صدیقی اور جسٹس فضل الٰہی خان شامل تھے ۔ ان دس ججوں نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا صرف ایک جج جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا اور کہا کہ لاہور کے وزیراعظم کو بحال کیا جاتا ہے لاڑکانہ کی وزیر اعظم کو بحال نہیں کیا جاتا۔ اور سنئے عدالت میں نواز شریف کا دفاع کرنے والوں میں سابق اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے علاوہ خالد انور، خالد اسحاق، ذکی الدین پال، آفتاب فرخ، اکرم شیخ، اشتر اوصاف علی اور میاں ثاقب نثار شامل تھے ۔ ثاقب نثار آج چیف جسٹس آف پاکستان ہیں اور شاید اسی لئے انہوں نے پاناما کیس سننے سے معذرت کرلی کیونکہ 1993ء میں وہ نواز شریف کا دفاع کرنے والے وکلاء میں شامل تھے ۔ اشتر اوصاف علی آج اٹارنی جنرل بن چکے ہیں۔ 1993ء میں عدالت میں صدر غلام اسحاق خان کی وکالت کرنے والوں میں اٹارنی جنرل عزیز اے منشی، مقبول الٰہی ملک، فقیر محمد کھوکھر، چودھری اعجاز احمد اور مخدوم علی خان بھی شامل تھے ۔ اب مخدوم علی خان پاناما کیس میں نواز شریف کے وکیل ہیں ۔
1993ء



                                                                                

‎ میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے والے بینچ پر نظر ڈالیں اور نوٹ کریں کہ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنائے گئے ۔جسٹس رفیق تارڑ کو مسلم لیگ (ن) نے صدر پاکستان بنایا ۔جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار بنے اور آخری دنوں میں سندھ کے گورنر بنائے گئے ۔ منصفوں کو ان عہدوں پر بیٹھناچاہئے یا نہیں ؟ یہ ایک لمبی بحث ہے البتہ خلیل  جبران نے یہ ضرور کہا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو انہی لوگوں کے سامنے دہراتی ہے جو تاریخ سے ناواقف ہوں ۔اپنی تاریخ پر نظر دوڑا لیں ۔اپنے عدالتی فیصلے میں جبران کے جملے نقل کرنے والے جج نے پاناما کیس کا فیصلہ لکھتے ہوئے جبران کو سامنے رکھا کہ 2012 میں یوسف رضا گیلانی کو اس جرم کی سزا ملی تھی کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کے ایک مقدمے کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کیلئے عدالتی حکم کو نظرانداز کیا ۔ کیا پاناما کیس میں بھی عدالت کی طرف سے وزیر اعظم کو ایسا کوئی حکم دیا جانا چاہیے تھا امید تھی کہ یہ فیصلہ کسی فرد کو کمزور یا مضبوط نہیں کرے گا بلکہ ریاست اور اس کے اداروں کو مضبوط کرے گا اور آئندہ کوئی  شخص 1993ء کے عدالتی فیصلے کا 2017  سے موازنہ نہ کرتا۔ 

آخر میں مختصر سا خدشہ۔ 

نواز شریف صاحب کے مزاج آشنا تو ان دو ججز کے مستقبل پہ فاتح بھی پڑھ چکے ھیں جنہوں نے نواز شریف کی صداقت و دیانت پہ ایمان لانے سے انکار کیا۔                       

Saturday, 13 May 2017

گو نواز گو

                                

                                            





محترم ویورز آجکل یہ گو نواز گو کے نعرے زبان زد عام ھیں۔ ایسا کیوں ھے  اتنی رسوائی اس شخص کا مقدر کیوں ھے آئیے اس پہ بات کرتے ھیں۔    


‎پاکستان کی تاریخ میں جتنی تجارتی ترقی شریف خاندان نے اقتدار میں آ کر کی یہ سعادت کسی اور سیاست دان کو نصیب نہیں ہوئی، شہرت تو بہت سے سرمایہ داروں نے حاصل کی مگر سچ یہ ھے کہ عزت اعلیٰ کردار والوں کو ملتی ہے، جنہوں نے اپنی زندگیاں عوامی فلاح کے لیے وقف کر دیں. 


‎نواز شریف صاحب کے خاندان کا شمار مذہبی خاندانوں میں ہوتا ہے، سالوں سے یہ معمول ہے کہ نوازشریف رمضان کا آخری عشرہ سعودی عرب میں گزارتے ہیں۔ اپنی تقریروں میں قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کی زندگیوں کا بھی ذکر کرتے رہتے ہیں مگر اپ کی شان و شوکت اور آپ کے مال و دولت کا کیا عالم ہے؟ آپ کی بود و باش کیسی ہے؟ اولاد کا چلن کس طرح کا ہے؟ ان کا کاروبار کیا ہے؟ اقتدار میں آنے سے قبل آپ کے پاس یہ سب کچھ تھا؟ ھمیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔

‎دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم جدی پشتی امیر آ رہے ہیں تو حضور والا حضرت عمربن عبدالعزیزؓ آپ کی طرح شہزادے تھے، جس طرح آپ وزیراعظم بننے سے پہلے وزیر اعلیٰ رہے، وہ بھی امیر المؤمنین بننے سے پہلے گورنر تھے، جس طرح آپ کی خوش خوراکی اور خوش لباسی کا شہرہ ہے، وہ بھی عرب میں جامہ زیب اور خوش خوراک مشہور تھے۔ جس طرح آپ کے ہاں دولت کی ریل پیل ہے، ان کے ہاں بھی یہی رنگ تھا۔ فرق یہ ہے کہ آپ کی دولت میں اضافہ اقتدار میں آنے کے بعد ہوا اور وہ اقتدار میں آئے تو سب کچھ قربان کر دیا۔ امیری کے حصار سے نکل کر فقیری کے حلقے میں داخل ہوگئے اور آپ امیری کی ہمالیہ پر جا بیٹھے۔ وہ بیوی بچوں کی آسائش کو اپنے لیے آزمائش سمجھتے تھے اور آپ بیوی بچوں کی آسائش کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز امیر المؤمنین بننے کے بعد دارالخلافہ روانہ ہونے لگے تو کوتوال نے حسب دستور نیزہ اٹھا کر چلنا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ یہ کروفر آج سے ختم، مگر جب آپ نکلتے ہیں، کان پھاڑتی ہارن بجاتی گاڑیوں کے جلو میں تو عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ 
‎ یا حضرت آپ کو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی مثال اسلئے دی ھے کہ آپ مزہب کا جُبہ پہن کہ پاکستان کی معصوم عوام کو نہایت چابکدستی سے مزہبی طود پہ ایموشنل بلیک میل کرتے رہتے ھیں۔ 
   
               



‎امیر لمومینین بننے کے خواہشمند جناب نواز شریف صاحب اپ کو شاید کسی نے یہ بتایا ھو کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اقتدار میں آ کر سادگی کے وہ انمٹ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک باقی رہیں گے. ہندوستان میں گاندھی کے قتل کے بعد قائداعظم کو تجویز پیش کی گئی کہ سکیورٹی کے لیے گورنر جنرل ہاؤس کے رہائشی حصے کے ساتھ حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے۔ قائداعظم نے مالی دشواریوں کا احساس کرتے ہوئے یہ تجویز مسترد کر دی، مگر آپ نے تو رائیونڈ محل کے گرد حفاظتی دیوار کی تعمیر پر مفلوک الحال قوم کے اربوں روپے لگا دیے اور اپنی حفاظت پر سینکڑوں جوان مامور کر دیے جن کو تنخواہیں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دی جاتی ہیں

‎قیام پاکستان کے بعد گورنرجنرل کے سر کاری استعمال کے لیے ایک طیارہ خریدنے کی غرض سے ایک امریکی کمپنی سے رابطہ کیا گیا، امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم ایچ اصفہانی نے قائداعظم کے نام خط لکھ کر طیارے کی قیمت سے آگاہ کیا جو اس وقت پندرہ لاکھ پاکستانی روپے تھی، قائداعظم نے اس کی اجازت نہ دی مگر ظلِ الہیٰ شہبازشریف نے اپنے لیے افلاس سے ماری قوم کے پیسوں سے کئی سو کروڑ کا طیارہ خریدا۔ کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے قائداعظم کی رہائش گاہ کے لیے فرنیچرگفٹ کرنے کی پیشکش کی، قائداعظم نے پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر دی اور کہا کہ وہ گفٹ وصول کرنے کی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے، مگر گفٹ کے معاملات میں تو آپ سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی سے بھی بڑھ کہ بادشاہ سلامت ثابت ہوئے
‎پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کا لباس دیکھنے والے یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان کے لباس پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان جدی پشتی نواب تھے۔ بلکہ نواب ابن نواب تھے۔  اپ کے اجداد کی طرح لوھا نہیں لوٹتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل لیاقت علی خان ہندوستان میں کروڑوں روپے کی جائیداد کے مالک تھے لیکن انہوں نے اور نہ ہی ان کی بیگم نے پاکستان میں کوئی جائیداد حاصل کی، جو کچھ بھی ان کے قانونی حق بنتے تھے، وہ سب انہوں نے چھوڑ دیے۔ جب وہ شہید ہوئے تو پورے پاکستان میں ان کا پانچ مرلے کا ایک مکا ن بھی ذاتی ملکیت میں نہیں تھا۔ یہ تھا پاکستان بنانے والے ہمارے قائدین کی دیانت اور ایمانداری کا معیار، اگر یہ چاہتے تو بزنس ایمپائر اور وسیع و عریض جائیدادوں کے مالک بن سکتے تھے مگر سب کچھ ملنے کے باوجود اپنا دامن بچا کر    چلے گئے، اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ 
جناب وزیر اعظم صاحب 

‎اقتدار آپ کو بھی ملا اور تین بار ملا مگر کیا آپ کو اسلئے ھی اقتدار ملا تھا  کہ پورے ملک کی اپ سے بیزار عوام آپ کے لئے گو نواز گو کے نعرے سر عام  لگائے۔
                                                                                                                                                             

Tuesday, 31 January 2017

میانمار کے معروف و سماجی شخصیت اور مسلم وکیل کونی کو حالیہ افسوس ناک واقعہ میں بیرون ملک سے واپس میانمار پہنچنے پر دہشت گردوں نے ایئر پورٹ پر حملے کر ہلاک کر دیا گیا، اس دل خراش سانحے میں ان کے ساتھ ساتھ ٹیکسی ڈرائیو بھی گولیاں کا نشانہ بنا ۔ میانمار کے اندر کونی کا شمارمسلمان کمیونٹی کے عظیم رہنما وں اور لیڈروں میں ہوتا تھاان کی مسلمانوں کے حقوق کی جنگ عرصہ دراز سے جاری تھی۔ 1988 میں کونی حکومت کے مخالف تحریک کا حصہ بنے جس کے نتیجے میں ان کو قید و بند کی مشکلات و تکالیف اٹھانا پڑی۔کونی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے جنہوں نے فوجی بغاوت کے بعد گورنمنٹ چارٹر بنانا میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ پچھلے سال کونی نے مسلم لائرڈ ایسویشن کی بنیادڈالی جس کا مقصد تمام انسانوں کو مساوی بنیاد پر حقوق کی فراہمی تھی۔ برما (میانمار) براعظم ایشیاء کا غریب اور پسماندہ ترین ملک ہے۔ جغرافیائی طوراس کی سرحدیں چین، بنگلا دیش، روس، تھائی لینڈ اور عرب ممالک سے ملتی ہیں۔ 6کڑور سے زیادہ آبادی والے اس ملک کا رقبہ 6 لاکھ 77ہزار مربع کلومیڑہے۔ ریاست بدحالی اور افلاس کے باوجود اپنا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ برما میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں لیکن حالیہ مردم شماری کے مطابق 50 فیصد بت پرست اور صرف 5 فیصد مسلمان یہاں کے شہری ہیں جب کہ اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کی مطابق 1 کروڑسے زیادہ مسلمان میانمار میں آباد ہیں۔
1973 میں برما نےآزادی تو حاصل کی لیکن انگریز سمراج نے راکھین کو آزاد ملک کا درجہ دینےکے بجائے اسے برما کے بت پرستوں کے حوالے کر دیا۔1784 میں راکھین ایک آزادمسلم ملک تھا، روہیگنا اور راکھین مسلمانوں کا آبائی ملک تھا جس پر بعد میں برمیوں نے قبضہ کر لیا۔ مہاتم بت کے درس کے مطابق دنیا دکھوں کا گھر ہے اور مہاتم بت امن کے سفیربنا کر بنائے گئے ہیں۔ آج مہاتم بت کے پیروں کاروں نے مظالم کی حد کر دی ہے ، مسلمانوں پر انسانیت سوز دکھوں کی یلغار کر دی گئی۔ مسلمان جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ان کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کے حقوق و فرائض سے معذور رکھا گیا ۔ برما کی حکومت کی طرف سے بر ملا اعلان کیا گیا کہ مسلمان جو یہاں اآباد ہیں وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ برما صدر تھین سین کے نظریات کے مطابق مسلمانوں کو کوئی حقوق و رائیٹ نہیں کہ وہ یہاں کے پاشندے بن کر رہ سکیں ان کے تحفظ کا ایک راستہ ہے کہ وہ شہروں کو چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں چلے جائیں یا برما کو چھوڑ کر چلیں جائیں۔ روہینگیا شہر مسلم اآبادی کا اکژیتی علاقے کے شہریوں کی تحفظ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے 45 ہزار بچوں کا اندراج نہیں کیا گیا مسلم پر پابندی لگائی کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے ۔ 1982 میں قیام شدہ قانون کے مطابق روہیگنا کے پیداہونے والے تمام بچے برمی شہری نہیں ہیں انہیں حکومت کی جانب سے کوئی سہولیات میسر نہیں کی گئی۔
غذا ، خردونوش، صحت اور تعلیم سمیت بنیادی سہولیات فراہم نہیں کئی گئیں۔ ماضی میں بڑی تعداد میں یہاں کے مسلمانوں نے بنگلہ دیشن اور تھائی لینڈ ہجرت کر لی ۔ بنگلہ دیش حکومت نے برما سے آنے والے مہاجرین کے لئے سخت پالیسی مرتب کی۔ ڈھاکہ سرکار کو خطرہ ہے کہ یہ پناہ گرین بنگلہ دیش میں آ کر جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں گے جس سے ان کی طاقت کو تقویت ملے گی۔ 28 مئی 2012 کو برمی بت مذہب خواتین کے قبولیت اسلام کے بعد مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی دیر تھی کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہو گیا۔ بت پرستوں نے انتقام کے لئے اس مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کے بعدقتل کرکے الزام مسلمان فیملی پر لگا دیا۔ بت پرستوں کو یہ ڈر اور خطرہ لاحق ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کامذہب ہے جو تمام انسانیت کو برابری کا حق دیتا ہے اگر اس طرح مسلمان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو بت پرست کا مذہب زوال پذیر اور مسلمان اکثریت پا جائیں۔ اس منفی اور انسانیت کش نظریہ کو بت پرست لیڈروں نے بنیاد بنا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے یہ مظلومیت کا واقعہ ترتیب دیا تاکہ تمام اقوام عالم کی ہمدردیاں بت پرستوں کے حاصل ہو سکیں۔
3 جون 2012 کو بت پرستوں نے تبلغی جماعت کی ایک بس پر دھاوا بول دیا جس میں 10 سے زیادہ مسلمان شہید کر نے کے بعد اس کے سر منڈ کر ان کے چہرے مسخ کئے اور ان کو اپنا ساتھی قرار دے کر یہ الزام مسلمانوں پر لگاکہ ہمارے رہنماوں کومسلمانوں نے قتل کیا ہے۔ اس بھونڈے الزام کو پورے ملک میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلایا گیاجس کے بعدمسلمانوں کے خلاف ، ظلم ، بربریت اور فسادات کا ناروکنے والاسلسلہ شروع کروایا گیاجس میں برما کے اندر کوئی مسلمان محفوظ نہیں رہاجن کو بیمہانہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ریاست کے تمام دفاعی ادارے پولیس اورفوج نے بت پرستوں کا کھل کر ساتھ دیا یہ قتل اور جلادوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آئی۔ مسلم کی عزارسانی اور قتل و گارت گری کو مذہبی فریضہ سمجھ کرانجام دیا۔ 10 جون 2012 کو فوج نے اکثریتی مسلم علاقوں میں کرفیو نافض کر دیاتاکہ عالمی برادری تک ان مظالم کی رسائی نہیں ہونے پائے۔
برما میں حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی عائد کی گئی۔ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت حکومتی سر پرستی میں “مال ملائشیا نامی تنظیم” نے 900 سے زیادہ دیہادتوں کو صف ہستی سے مٹادیا مسلمانوں کا سفاکانہ قتل کرنے کے ساتھ ان کی عزت کی دھجائیاں بکھری گئی عورتوں کی عصمت اور بے آبروی گری کے ساتھ ان کے مکانات اور کھیتوں کو نظر آتش کرنے کے ساتھ 60سے زیادہ مساجد کو شہید کیا گیا۔ برمی مسلمانوں کی اس قیامت سوزی گھڑی میں 1 لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو جبر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان لا پتا ہیں ۔ انسانیت سوزمظالم کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ شدید پسند مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خنزیز کا گوشت کھائیں، شراب پیئں یا مرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ قتل و خون کی جاری ہولی میں عالمی برادری اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا نے میں اندھی، گوگی اور بہری نظر آتیں ہیں ۔ان تنظمیوں کی اس ظلم و ستم پر مداخلت اس وقت ہوتی ہے جن سامراجی حکومیتیں اپنے فوائد اور مفادات کے لئے ان کو اجازت دیں۔
یہ عالمی انصاف کا دوہرا معیارسب عیاں کر دیتا ہے کہ ان کی زبان پر تالے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔انسانی حقوق کی ترجمان تنظمیں عالم کفر کے الگ اور مسلم نیشنل کے الگ معیار اور سوچ کے مالک ہو کر فیصلے کرتے ہیں۔ بے حد افسوسناک صورتحال یہ ہے مسلم امت اور ممالک بھی اس سارے المیہ پر خاموش تماشی کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھائی دیتی ہے۔ برما کے مسلم برادری عالمی برادری سے انصاف اور مدد کی اپیل کرے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور او ۔آئی۔سی کی طرح ان کی نظریں پاکستان پر بھی لگی ہوئی ہیں کہ حکومت پاکستان سخت موقف اپناتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات کی بنیاد پرعالمی برادری کی توجہ برما کے مسلمانوں کی طرف دلائےتاکہ ظلم و جبرکے ارتکاب کو بند کرکے جنگی جرائم کے مرتکب گروہوں اور عناصر کو عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔